بن المثنی سے وہ عبداللہ بن دینار سے وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتا ہے آپ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا:
’’ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں اسی کی طرف سے شروع ہوا اور اسی کی طرف لوٹ کر جائے گا۔‘‘
یہ قول سلف صالحین سے صحیح اورمتواتر سند کے ساتھ منقول ہے مگر ان الفاظ کارسول اللہ سے روایت کرنا جھوٹ ہے۔ اور پھر اسے مسند احمد بن حنبل کی طرف منسوب کرنا ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔[1] بلا ریب امام احمد کی مسند میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔
امام حمد بن حنبل رحمہ اللہ آزمائش کے دور میں اہل سنت و الجماعت کے امام تھے۔ آپ کے ساتھ آفاق میں مشہور مسئلہ خلق قرآن کے بارے میں بہت آزمائشیں پیش آئیں ۔اور آپ دلائل پیش کیا کرتے تھے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔ آپ کے یہ دلائل بہت زیادہ اور مشہور و معروف ہیں ۔ مگر آپ نے کسی ایک موقع پر بھی اس روایت سے استدلال نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کوئی ذکر تک کیا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس یہ حدیث موجود ہو مگر آپ اس سے استدلال نہ کرتے ہوں ۔ یہ حدیث اسی شیخ کے ہاں پہچانی گئی ہے اورپھر بعد میں جن لوگوں نے آپ کی شاگردی اختیار کی تھی آپ کی کتاب میں کچھ ملاوٹ کردی۔تو دوسرے لوگوں ان دونوں چیزوں کے ملا کر پڑھنے لگ گئے۔ اس طرح جو لوگ علم سے نا آشنا تھے ان میں یہ روایت رواج پکڑ گئی۔
یہی حال حدیث عاشورا کا بھی ہے۔عاشورا کی صحیح اور ثابت شدہ فضیلت اس دن کا روزہ رکھنا ہے۔ یہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوغرق ہونے سے بچایا تھا۔ اس مسئلہ پر اپنی جگہ پر ہم نے تفصیل کے ساتھ کلام کردیا ہے۔اور ہم نے یہ بیان کردیا کہ اس دن میں روزہ رکھنے کی علاوہ جتنے بھی اعمال کیے جاتے ہیں جیسے سرمہ لگاناخضاب لگانا دانے پکانا اور قربانی کا گوشت کھانا نفقہ میں وسعت دینا اور اس طرح کے دیگر امور سب مکروہ بدعت ہیں ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کا نہیں کہا۔اس بدعت کی ابتدا قاتلان حسین کی طرف سے ہوئی ہے۔
ان سے بھی زیادہ قبیح رافضیوں کے کرتوت ہیں ۔جو کچھ وہ ماتم کرتے ہیں اور مرثیے پڑھتے ہیں ۔اور اس میں گریہ وزاری کے قصیدوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس دن اپنے آپ کو پیاسا رکھتے ہیں اور اپنوں چہروں پر تھپڑ مارتے اورگال پیٹتے اور گریبان پھاڑتے ہیں اور جاہلیت کا رونا روتے ہیں ۔جب کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
|