یوم عاشورایعنی مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے دن کی وجہ سے بھی لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ شیعہ اس دن ماتم اوردیگر ایسی برائیاں کرتے ہیں جن کا ارتکاب صرف کوئی جاہل اور گمراہ ترین انسان ہی کرسکتا ہے۔اورایک گروہ نے اس دن کو عید کے دن کی طرح بنالیا ہے۔ اس دن وہ کھانے پینے اور لباس میں کھلا خرچ کرتے ہیں ۔ اور اس بارے میں ایک من گھڑت حدیث روایت کرتے ہیں کہ:آپ نے فرمایا:’’ جس نے اس دن اپنے اہل خانہ پر کھلا خرچ کیا اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر کھلا خرچ کرتا ہے۔‘‘ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑ لیا گیا ہے۔
امام حرب رحمہ اللہ کرمانی فرماتے ہیں : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
محدثین کے ہاں مشہور یہ ہے کہ اسے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے ابراہیم بن محمد بن منتشر سے انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔آپ فرماتے ہیں : ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ: جس نے اس دن اپنے اہل خانہ پر کھلا خرچ کیا اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر کھلا خرچ کرتا ہے۔ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہم نے ساٹھ سال سے اس کا تجربہ کیا ہے اور اسے صحیح پایاہے۔
میں کہتا ہوں : محمد بن منتشر رحمہ اللہ فضلا ء اہل کوفہ میں سے تھا۔یہ ہر سنی اور پہنچی ہوئی بات نقل کرنے والوں میں سے ہر گزنہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات حضرت حسین پر تعصب رکھنے والے بعض لوگوں نے گھڑلی ہے تاکہ آپ کی شہادت کے دن کو عید بنایا جائے۔ پس یہ بات اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب جہلا میں مشہور ہوگئی۔یہاں کہ احادیث گھڑلی گئیں کہ دس محرم کو یہ یہ واقعات پیش آئے ہیں ۔یہاں تک انبیا کرام کے اکثر واقعات کو بھی اسی دن کے ساتھ جوڑ دیاگیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس حضرت یوسف کی قمیص کا پہنچنا اور آپ کی بینائی بحال ہونا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو عافیت ملنا ذبیحہ کی قربانی پیش کرنا اور اس طرح کے دیگر واقعات۔ یہ تمام احادیث جھوٹ اور من گھڑت ہیں ۔ ان جوزی نے انہیں الموضوعات [۲؍۱۹۹]میں ذکر کیا ہے۔ اگرچہ آپ اسے اپنی کتاب ’’النور فی فضائل أیام و شہور‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔اورانہوں نے اپنے شیخ ابن ناصر سے اس کا ذکر بھی کیاہے کہ آپ نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح ہے۔ اوراس کی سند صحیح کی شرائط کے مطابق ہے ۔لیکن درست بات وہی ہے جو ابن جوزی نے الموضوعات میں لکھی ہے۔یہی آخری قول ہے۔
ابن ناصر پراس کے راویوں کی حقیقت آشکار نہیں ہوسکی۔ وگرنہ یہ حدیث عقل اور شرع کے منافی ہے۔اسے مشہور اہل علم محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی معتمد کتاب میں اس کا ذکر نہیں کیا ۔ بلکہ یہ بعض متاخر مشائخ کی تدلیس ہے۔
جیسا کہ بعض دوسر احادیث ے بارے میں بھی پیش آیاہے۔یہاں تک کہ وہ احادیث جو کہ مسند احمد بن حنبل کی طرف منسوب کی گئی ہیں حالانکہ وہ احادیث مسند احمد میں موجود نہیں ہیں ۔مثال کے طورپر وہ حدیث جسے عبدالقادر بن یوسف نے ابن المذہب سے اور اس نے قطیعی سے اس نے عبداللہ سے اس نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے وہ عبداللہ
|