تسلیم کریں ۔ مگر انہوں نے آپ پر ظلم کرتے ہوئے آپ سے جنگ کی۔ آپ اس وقت لوگوں کی جماعت میں تفریق نہیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔اور نہ ہی خلافت کے طلبگار تھے۔ اور نہ ہی آپ نے خلافت طلب کرنے کے لیے جنگ کی تھی۔ بلکہ آپ نے اپنے نفس کے دفاع میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو آپ پر اور آپ کے خاندان پر ظلم کرنا چاہتے تھے۔اس سے پہلے گروہ کے عقیدہ کا باطل ہونا ثابت ہوگیا۔
جب کہ دوسرے گروہ کے قول کا باطل ہونا کئی وجوہات کی بناپر معروف ہے: ان میں سب سے ظاہربات یہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوئے تھے آپ نے کسی کی تکفیر نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ وہ خوارج کو بھی کافر قرار نہیں دیتے تھے۔ آپ نے ان کی اولاد کو لونڈی غلام نہیں بنایا تھااورنہ ہی ان میں سے کسی کے مال کو مال غنیمت بنایا تھا۔اورنہ ہی اپنے خلاف کسی جنگ کرنے والے پر آپ نے مرتد ہونے کاحکم لگایا۔جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور باقی تمام صحابہ نے بنو حنیفہ اور ان کے امثال مرتدین پر حکم لگایاتھا۔ بلکہ آپ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور اپنے خلاف دوسرے جنگ کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے طالب تھے۔اور اپنے خلاف نبرد آزما لوگوں اور اصحاب معاویہ کے متعلق عام مسلمانوں کی طرح حکم لگایا کرتے تھے۔یہ بات آپ سے ثابت ہے کہ : یوم جمل کے موقعہ پر آپ کی طرف سے منادی کرنے والا آواز لگارہا تھا :
’’ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے؛ زخمی کو گرفتار نہ کیا جائے؛ اور مال کو مالِ غنیمت نہ بنایا جائے۔‘‘
آپ کی یہی بات خوارج کو ناگوار گزری تھی؛ یہاں تک کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اس مسئلہ میں مناظرہ کیا ؛ یہ بات دیگر مواقع پر تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے۔
حضرت عل سے یہ اخبار مشہور ہیں کہ آپ حضرت معاویہ کے لشکر کے مقتولین کے متعلق فرمایا کرتے تھے:
بلاشبہ یہ تمام مسلمان ہیں ۔کفار یا منافقین نہیں ہیں ۔یہ بات ہم پہلے کئی مواقع پر بیان کرچکے ہیں ۔یہی حال حضرت عمار اور دوسرے صحابہ کرام کا بھی تھا۔
یہ تینوں گروہ عراق میں تھے۔ ان کے علاوہ ایک میں ایک اورگروہ شیعان عثمان نواصب کا تھا جو کہ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتے تھے۔اور ایک گروہ شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے بھی ایسا تھاجو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اقارب سے بغض و نفرت رکھتا تھا۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی روایت سے موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ عنقریب بنوثقیف میں ایک خونخوار اور ایک جھوٹا ظاہر ہوگا۔‘‘
یہ جھوٹا مختار بن عبید ثقفی تھا جب کہ خونخوار حجاج بن یوسف۔حجاج شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت سے بغض رکھتا تھا۔ جب کہ جھوٹا شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے تھا حتی کہ اس نے عبیداللہ بن زیاد سے جنگ کرکے اسے قتل کردیااور بعد میں دعوی کرنے لگا کہ اس کے پاس جبریل امین علیہ السلام آتا ہے۔ چنانچہ اس کا جھوٹ ظاہر ہوگیا۔
|