وَ اَجْمَعُ الرَّأْیَ الشَّتِیْتَ المُنْتَثَرْ
’’میں معذرت نہیں کر رہا، بلکہ یہ سچ ہے کہ میں عاجز آگیا ہوں ۔ اس کے بعد میں غوروفکر سے کام لوں گے اور (سیدھی راہ پر) چلتارہوں گا۔ نیز بکھری ہوئی پراگندہ رائے یک جا کروں گا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین کی راتوں میں فرمایا کرتے تھے:’’ اے حسن ! اے حسن! تیرے باپ کا یہ خیال نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا۔ اللہ کے لیے ہی سعد بن مالک اور عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت ہے ‘ انہوں نے فتنہ سے الگ رہ کر کتنا اچھا موقف اختیار کیا تھا۔ اگر وہ نیک تھے تو انھیں بڑا اجر ملے گا اور اگرگناہ گار تھے تو اس میں چنداں خطرہ نہیں ہے۔‘‘مصنفین نے آپ سے یہ کلام ایسے ہی نقل کیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر منقول ہے کہ آپ اپنے اصحاب و احباب کے اختلاف سے بڑے بے چین رہا کرتے تھے۔ اور آپ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ معاملہ جہاں تک پہنچ گیا تھا وہاں تک پہنچے گا۔احادیث مبارکہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رائے کی تصویب آئی ہے ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[1]
یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے مابین صلح کرنے پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہیں ۔
تمام صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں کہ جنگ سے دور رہنا ‘اور فتنہ سے اپنے آپ کو بچانا اللہ اور اس کے رسول کے ہاں زیادہ پسندیدہ تھا۔ اکثر ائمہ اہل سنت والجماعت اورائمہ اسلام کا یہی قول ہے۔ اور اعتبار کے لحاظ سے بھی یہ قول ظاہر ہے۔ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کسی کام کے ثمرات کے لحاظ سے ہوتی ہے ۔ پس جو چیز مسلمانوں کے لیے ان کے دین و دنیا کے اعتبار سے بہتر ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہوتی ہے۔ واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رائے مسلمانوں کے دین اور دنیا کے اعتبار سے ان کے لیے نفع بخش تھی ؛ اس لیے کہ اس کے نتائج دونوں گروہوں کے حق میں بہتر ثابت ہوئے۔
صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
’’ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی ان دونوں سے محبت کر۔ او ران لوگوں سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کریں ۔‘‘[2]
یہ دونوں حضرات جنگ کے خلاف تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما دونوں نے طلب کیا تھا؛ مگر آپ نے جنگ میں ان میں سے کسی ایک کا ساتھ بھی نہیں دیا۔[واقعات نے ثابت کردیا تھا کہ جنگ آزمائی سے باز رہ کر حضرت حسن نے امت پر عظیم احسان کیا تھا]۔جیسا کہ دوسرے کئی اکابرصحابہ جیسے : حضرت سعد بن ابی وقاص ؛ ابن عمر و محمد
|