Maktaba Wahhabi

472 - 764
او ر آپ سے جنگ کی نسبت شر بہت کم تھا۔جو انسان بھی یہ گمان کرتا ہے کہ آپ کی ولایت میں شر تھا ؛ اسے جاننا چاہیے کہ آپ کے ساتھ جنگ کرنے میں شر اس سے زیادہ اور بڑا تھا۔ یہ مثال اور اس جیسی دیگر مثالوں سے ان لوگوں کی جہالت واضح ہوجاتی ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غیبی امور جانتے تھے۔ بلکہ رافضی کا دعوی ہے متناقض ہے ۔ان منفی امور کے باوجود آپ کے بارے میں علم الغیب کا دعوی کرتے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ہی آپ کے لیے انتہائی شجاعت کے دعویدار ہیں ؛ اور ان کا خیال ہے کہ آپ نے ہی غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی۔اورشروع اسلام میں کمزوری کے ایام میں آپ کی تلوار کی وجہ سے اسلام کے قواعد پختہ ہوئے۔اورپھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں عاجزی و درماندگی اور کمزوری بیان کرتے ہیں ۔یہ متناقض بیانات ہیں ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال نہیں تھا کہ لوگوں کودیکر ان کے دل موہ لیتے؛ نہ ہی آپ کا قبیلہ بہت بڑا تھا اورنہ ہی آپ کے موالین تھے جو آپ کی مدد کرتے۔ اورنہ ہی آپ نے لوگوں کو اپنی بیعت کرنے کو کہا ؛ نہ ہی کسی کو ڈرایا دھمکایا اورنہ ہی کوئی لالچ دی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے دفاع پر ان کفار پرقادر ہونے کی نسبت زیادہ قادر تھے جنہوں نے مختلف مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگیں لڑیں اور آپ کواذیتیں پہنچائی تھیں ۔اگر آپ ہی کفار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے ؛ اور آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی دفاع کرنا چاہتے تھے تو آپ اس بات پر زیادہ قادر تھے۔ لیکن شیعہ جمع بین نقیضین ہی کرتے ہیں ۔ یہی حال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے آپ کی جنگ کا ہے ۔ اس وقت آپ غالب بھی تھے آپ کے پاس بہت بڑا لشکر بھی تھا اور آپ کے لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے جو ان لوگوں سے بدرجہا افضل تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے لشکرکو مغلوب کرنا چاہتے تھے۔ پس اگر آپ ہی نے مسلمانوں کی کمزوری اور قتل کے وقت کفار کی کثرت کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت کی تھی تو پھر آپ کے لشکر کی کثرت اورلشکرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی قلت کے ساتھ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو مغلوب کرنے پر ان کفار کو مغلوب کرنے کی نسبت زیادہ قادر تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگیں کیں ۔[اہل عقل کے لیے غور کی بات یہ ہے کہ ] اس بہادری و شجاعت اورقوت اور اس عاجزی و کمزوری کے مابین کسی جاہل کے علاوہ کوئی دوسرا بھی جمع کرسکتا ہے؟ بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام نصرت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھی؛ او راللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اور اہل ایمان سے آپ کی تائید ونصرت فرمائی تھی۔ معلوم ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے سب مومنین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید فرمائی تھی اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل ایمان سب شامل ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس شعر سے ان کے علم غیب کی نفی ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں : لَقَدْ عَجَزْتُ عَجْزَۃً لَّا اَعْتَذِر سَوْفَ اَکِیْسَ بَعْدَہَا وَ اَسْتَمِرّ
Flag Counter