واقعہ باطل ہے ‘ اور اس کی سند منقطع ہے۔
اس کے چچا یزید رضی اللہ عنہ کا شمار نیکوکار صحابہ کرام میں سے تھا۔ اس کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا۔ اس کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی جگہ دوسرے بھائی معاویہ کو تعینات کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لوگوں سے زیادہ اہل لوگوں کے احوال جانتے تھے۔ اور سیاست میں بڑے ماہر تھے۔خواہشات نفس سے بڑے دور تھے۔آپ نے اپنی خلافت میں کسی ایک بھی قریبی رشتہ دار کو کوئی منصب تفویض نہیں کیا۔ آپ ولایت و امارت کے لیے صرف اسی انسان کا انتخاب فرمایا کرتے تھے جسے اس کا ہل سمجھتے تھے۔ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھی اسی لیے امیر بنایاتھا کہ ان کے نزدیک آپ اس منصب کے اہل تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی ولایت میں وسعت دیدی۔ یہاں تک کہ سارا شام آپ کے زیر نگین ہوگیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شام کے چار حصے تھے : فلسطین ‘ دمشق ‘ حمص اور اردن ۔ پھر اس کے بعد قنسرین اور دوسرے دار الحکومت کو ربع حمص سے علیحدہ کردیا گیا۔پھر اس کے بعد حلب آباد ہوگیا او رقِنسرین ویران ہوگیا۔ اوریہ دار الحکومت مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین حکومتیں بن گئے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عمراورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی طرف سے بیس سال تک اس علاقہ میں نائب رہے۔ پھر بیس سال تک امام و خلیفہ رہے۔آپ کی رعیت آپ کے احسانات اورحسن سلوک کی شکر گزاراورآپ پر راضی رہی تھی۔یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ جیسے معاملہ میں انہوں نے آپ کی اطاعت کی۔
یہ بھی معلوم شدہ بات ہے کہ آپ اپنے والد سے بہتر تھے ‘اور والد سے بڑھ کر ولایت کے جواز کے حق دار تھے۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ : آپ کو والی بنایا جاناحلال نہیں تھا۔ اگر یہ بات بھی مان لی جائے کہ کوئی دوسرا آپ سے زیادہ ولایت کا حق دار تھا؛ یا آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کی وجہ سے ظلم کے کاموں پر تعاون ہوا تھا ؛ تو پھر بھی آپ کی ولایت سے جس شر کا خاتمہ ہوا وہ آپ کے عہد میں حاصل ہونے والے شر سے بہت زیادہ ہے ۔
مال لینااور بعض لوگوں کو مناصب تفویض کرنا کہاں ہے؟ اورپھر صفین میں قتل ہونے والوں کو کس نے قتل کیا ؟ اس میں نہ ہی کسی کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی غلبہ ملا ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دینے والے لوگ بڑے پکے لوگ تھے ‘اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور مجتہد تھے ‘ آپ وہی کرتے تھے جس میں مصلحت سمجھتے تھے۔
یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر آپ مستقبل کی خبریں جانتے ہوتے تو آپ کو علم ہوتا کہ جنگ صفین کی نسبت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس امارت پر باقی رکھنا ہی زیادہ مصلحت پر مبنی تھا۔ کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے شر اور برائی کے زیادہ ہونے کے علاوہ توکچھ بھی نہیں ملا؛ اور نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی۔جب کہ آپ کی ولایت میں خیر کی کثرت تھی
[1]
|