Maktaba Wahhabi

470 - 764
اور وہ غلط ثابت ہوا کرتی تھی۔ اگر آپ کو یہ علم ہوتا کہ لڑائیوں میں لا تعداد جانیں ضائع ہونگی اور مقصد بھی حاصل نہ ہو گا تو آپ لڑائی میں حصہ نہ لیتے۔ جنگ آزمائی سے کنارہ کش ہونے کی صورت میں آپ زیادہ کامیاب و کامران ثابت ہوتے۔اس لیے کہ اکثر لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے اور اکثرشہر بھی آپ کے ماتحت تھے۔ جب آپ نے جنگ کی تو کمزور ہوگئے۔ یہاں تک کہ بہت سارے وہ شہر جو آپ کی خلافت میں شامل تھے ؛ جیسے مصر ؛ یمن اور حجاز ؛ وہ آہستہ آہستہ خودمختاری کے خواب دیکھنے لگے۔ اگر آپ جانتے ہوتے کہ میرے مقرر کردہ حَکم یہ فیصلہ صادر کریں گے تو آپ تحکیم پر راضی نہ ہوتے۔ اور اگر آپ کو علم ہوتا کہ ان میں سے ایک دوسرے کیساتھ وہی سلوک کرے گا جو کہ بعد میں دیکھا گیا؛ یہاں تک انہیں معزول کردیا گیا؛ تو آپ اپنی معزولی پر موافقت نہ کرتے ۔شروع میں آپ کے خیر خواہوں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی امارت پر باقی رہنے دیا ؛ یہاں تک کہ معاملات صحیح ڈگر پر آجاتے۔آپ کے محبین او رخیر خواہان کے ہاں یہ رائے زیادہ درست تھی۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان کو نجران کاوالی بنایا تھا۔ وہ وہاں کے والی ہی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کی نسبت زیادہ اچھے مسلمان تھے۔صحابہ اور تابعین میں سے کسی ایک نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ پر منافق ہونے کی تہمت نہیں لگائی ؛ جب کہ ان کے والد کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان کو شام کی فتح کے لیے حضرت خالد بن ولید اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ امیر لشکر مقرر کیا تھا۔ آپ اپنی امارت پر باقی رہے یہاں تک کہ شام میں ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔ آپ کا شمار فاضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں ہوتا تھا۔ آپ بہت نیک انسان تھے؛ اپنے بھائی اور والد سے زیادہ اچھے تھے ۔یہ وہ یزید نہیں ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جانشین [وخلیفہ ]ہوئے تھے۔اس ثانی الذکر یزید کی پیدائش ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی تھی۔ اس کانام اپنے چچا کے نام پر رکھا گیاتھا۔ جہلاء کا ایک گروہ اس یزید کو صحابی سمجھتا ہے؛ اوربعض غالی لوگ اسے نبی تک کا درجہ دیتے ہیں ۔ اور ان کے برعکس ایک دوسرا گروہ اسے کافر و مرتد قرار دیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں باطل ہیں ۔ اس کا صرف اتنا ہی مقام ہے کہ وہ بنی امیہ کا ایک خلیفہ ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ - ان کے قاتلوں پر اللہ کی لعنت ہو- اس کی خلافت کے دور میں بعض اختلافات کی بناپر مظلوم شہید ہوئے۔لیکن یزید نے انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔اور نہ ہی اس پر رضامندی کا اظہار کیا؛ اور نہ ہی ان لوگوں کی مددکی جنہوں نے آپ کو قتل کیا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر جب عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا تو اس نے آپ کے دانتوں پر لاٹھی سے مارا تھا؛ یہ بات صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے[1]۔ جب کہ سر کو یزید کے سامنے لے جاکر پیش کرنے کا
Flag Counter