میں سے سب بڑا عالم وہی ہے جس نے ہم میں سے ان باتوں کو زیادہ یاد رکھا۔‘‘[1]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فتح خیبر والے سال اسلام قبول کیا۔آپ کو چار سال سے بھی کم عرصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر آئی ۔ان کی اس تھیلی میں علم دین ‘ ایمان ؛ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سے کوئی بھی چیز نہیں تھی۔ اس میں مستقبل کے امور کی خبریں تھیں ۔مثال کے طورپر وہ فتنے جو مسلمانوں کے مابین پیش آئے؛ جیسے جنگ جمل اور صفین کا فتنہ؛ ابن زبیر کا فتنہ ؛ مقتل حسین رضی اللہ عنہ اور اس طرح کی دیگر خبریں تھیں ۔ اسی لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کے ساتھ فتنوں میں شریک نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اگر ابو ہریرہ تم سے یہ حدیث بیان کرتے کہ تم اپنے خلیفہ کو قتل کرو گے ‘اور تم ایسے ایسے کام کروگے تو تم لوگ کہتے ابو ہریرہ جھوٹ بول رہا ہے ۔‘‘
وہ حدیث جسے رازدان نبوت حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے ‘جسے ان کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا؛ صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے : حضرت علقمہ رحمہ اللہ شام گئے ؛جب آپ وہاں پہنچے تو ایک مسجد میں آئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کی کہ یا اللہ ہمیں کوئی اچھاہم نشین عطا کر۔ پھر حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھ گئے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ: کوفہ کا رہنے والا ہوں ۔ علقمہ رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم میں وہ شخص نہیں ہے جو اس راز کا جاننے والا ہے کہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا؟ یعنی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔کیا تم میں وہ شخص نہیں ہے، یا یہ کہا کہ کیا تم میں وہ شخص نہیں تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر شیطان سے پناہ دیدی ہے یعنی عمار رضی اللہ عنہ ؟میں نے کہا: کیوں نہیں ! ضرور ہیں ....[یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔][2]
یہ راز بعض ان منافقین کی شخصیات کا تعین تھا جو غزوہ تبوک میں شریک تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی رسی کھول کرآپ کو گرادیں ۔مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبردار کردیا۔ اس وقت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ قریب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان لوگوں کے نام بتادیے ۔ پس جب کوئی مجہول الحال انسان مرجاتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک اس کا جنازہ نہ پڑھتے جب تک حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اس جنازہ میں شریک نہ ہوں ۔ اس لیے کہ آپ کو اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں منافقین کا جنازہ نہ پڑھا دیں ۔
پس بعض صحابہ اور صالحین کا مستقبل کے بعض امور کو جان لینا اس بات کو واجب نہیں کرتا کہ وہ ان تمام امور کا عالم ہے۔وہ غالی شیعہ جو مطلق طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عالم الغیب ہونے کا دعوی کرتے ہیں ؛یہ دعوی صاف جھوٹ ہے ۔ جب کہ بعض باتوں کا علم ہونے میں آپ کی کو ئی خصوصیت نہیں ۔تمام چیزوں کا علم پوری طرح نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تھا او رنہ ہی کسی دوسرے کو ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امور مستقبل کے کلی عالم نہ ہونے کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ آپ کی خلافت کے زمانہ میں کئی جنگیں پیش آئیں ۔ آپ کے ذہن میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی تھیں کہ حقائق ان کے خلاف ظاہر ہوتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بعض اوقات اپنی لڑائیوں اور دیگر معاملات کے بارے میں ایک رائے قائم کرتے
|