Maktaba Wahhabi

43 - 764
اَوِائْتَنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [الأنفال۳۲] ’’اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ!اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔‘‘ پھر اس کے بعد [عذاب نہ آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ] فرمایا: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَ اَنْتَ فِیْہِمْ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ [الأنفال۳۳] ’’اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔‘‘ علماء کرام کا اتفاق ہے کہ اس کے باوجود اہل مکہ پر پتھر نہیں برسائے گئے تھے۔ اگریہ واقعہ درست ہوتا کہ پتھر حارث کے سرپر گرا اور دبر کے راستہ نکل گیا تو اصحاب الفیل کے واقعہ کی طرح یہ عظیم معجزہ تھا اور ہر کس و ناکس اس کو جانتا ہوتا‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔کیونکہ ایسے واقعات نقل کرنے اسباب اور ہمتیں موجود تھیں ۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ جب علم نقل کرنے والے علماء کی ایک جماعت موجودتھی۔ اور کسی بھی اہل علم‘ مستند مصنف نے اس روایت کو اپنی تصنیف میں ذکر نہیں کیا ؛ نہ ہی مسند میں نہ ہی صحاح میں ؛ نہ ہی فضائل میں ؛ نہ تفسیر میں نہ ہی سوانح میں ؛ بلکہ اسے روایت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اس طرح کی منکر روایات جمع کرتے رہتے ہیں ؛ تو اس سے معلوم ہوا یہ روایت باطل اور جھوٹ ہے۔ اس روایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان الفاظ کے کہنے والے نے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا تذکرہ بھی کیا تھا؛ اس بنیاد پر وہ مسلمان تھا ؛ کیونکہ وہ کہہ بھی رہا تھا : ہم نے آپ کی بات مان لی۔یہ بات ضرورت کے تحت سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس نام کا کوئی معروف آدمی تھا۔ بلکہ یہ نام بھی ان اسماء کی جنس سے ہے جسے طرقیہ ذکر کرتے ہیں اور یہ واقعہ بھی عنتر اور دلہمہ کے افسانوی قصوں کی طرح ہے۔ بہت سارے علمائے کرام رحمہم اللہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام جمع کیے ہیں جن سے کوئی بھی روایت منقول ہے۔ حتی کہ ضعیف احادیث بھی ذکر کی ہیں ۔ جیسے : ابن عبد البر کی کتاب ’’ الاستعیاب ‘‘ ابن مندہ کی کتاب ؛ ابو نعیم اصفہانی کی کتاب ؛ حافظ ابو موسیٰ کی کتاب ؛ اور اس طرح کی دیگر کتابیں ۔ان میں سے کسی ایک نے بھی اس آدمی کا ذکر تک نہیں کیا ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اس نام کے کسی آدمی سے کوئی روایت ذکر نہیں کی گئی ۔ اس لیے کہ یہ لوگ صرف وہی روایات ذکر کرتے ہیں جو اہل علم کے ہاں متداول ہوں ۔اور اہل طریقت وغیرہ کی روایات نقل نہیں کرتے ؛ جیسا کہ تنقلات الأنوار میں البکری کذاب نے کیا ہے ۔
Flag Counter