رہ گیا مطلق بشرط اطلاق وہ ایسا مقید وجود ہے جس سے تمام ثبوتی اور سلبی امور سلب کر لیے گئے ہیں ۔جیسا کہ انسان ہر قید سے خالی سے ہوتا ہے۔ جب آپ یہ کہیں کہ: وہ موجودہے یا معدوم ۔ ایک ہے یہ اکثر یا پھر ذہن میں ہے یا خارج میں ۔تو یہ شرط اطلاق کی حقیقت مطلقہ سے زائد ایک قید ہوگی۔اور اس طرح اس وجود کو ہر ثبوتی و سلبی قید سے مجرد قبول کرنا ہوتا ہے۔ آپ اس کی ثبوتی یا سلبی کو ئی صفت نہیں بیان کرسکتے۔ائمہ باطنیہ جیسے الاقالید الملکوتیہ کے مصنف ابو یعقوب سجستانی اور اس کی امثال کے ہاں اسے واجب الوجود کہتے ہیں ۔ لیکن ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو رفع نقیضین کو نہیں پہچانتے ۔ وہ کہتے ہیں : نہ ہی موجود ہے اور نہ ہی معدوم ۔ اور ان میں سے کوئی کہتا ہے: میں نقیضین میں سے ایک کے اثبات میں توقف کرتا ہوں ۔میں نہیں کہتا موجود ہے معدوم نہیں ۔جیسا کہ ابو یعقوب کا عقیدہ ہے۔ یہ وحد الوجود کے قائلین کی انتہا ہے۔
ابن سینا اور اس کے اتباع کہتے ہیں : وجودواجب وہ وجود ہے امور سلبیہ کو چھوڑ کر امور ثبوتیہ کی نفی کے ساتھ مقید ہو۔ اگرچہ یہ بات وجود اور عدم میں ممتنع بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی خارج میں وجود عدمی وسلبی کے ساتھ مقید وجود کے تصور سے بہت دور کی بات بھی ہے۔ میں نے تحقیق کے ان دعویداروں سے کہا: تم نے اپنے عقیدہ کی بنیاد مناطقہ کے قوانین پر رکھی ہے۔ یہ وجود مطلق جس میں اطلاق کی شرط لگائی گئی ہے یہ سلب نقیضین کے ساتھ مقید ہے ۔ اہل عقل و دانش کا اتفاق ہے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ۔ بلکہ اسے ذہن میں مقدر مانا جاتا ہے۔ وگرنہ اگر ہم انسان مطلق کو مقدر مانیں اور اس میں یہ شرط لگادیں کہ نہ ہی وہ معدوم ہو اورنہ ہی موجود ہو نہ ہی ایک ہو نہ ہی زیادہ تو خارج میں کوئی ایسا وجود نہیں پایا جاتا ۔ بلکہ ہم اسے ذہن میں فرض کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم ذہن میں جمع بین النقیضین کو فرض کرلیتے ہیں ایسے ہی رفع نقیضین کو فرض کرنا بھی جمع بین النقیضین کو فرض کرنے کی طرح ہے۔ یہی وجہ ہی کہ لوگ کبھی اسے جمع بین النقیضین کا نام دیتے ہیں تو کبھی ان دونوں سے امساک کا۔ جیسا کہ ابن عربی اور دوسرے بہت سارے لوگوں نے کیا ہے۔ اور کبھی ان دونوں چیزوں کو جمع کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ کتاب البطاقہ کے مصنف اور دوسرے لوگوں کے ہاں ملتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی کہتے ہیں وہی ذات اس عالم کو بغیر کسی سابقہ مثال کے پیدا کرنے والی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ وہ ذات کی کوئی مثتب یا منفی صفت نہیں بیان کی جاسکتی۔یہ ان کے عقیدہ میں تناقض ہے۔ اس لیے کہ اس کا مبدع ہونا ہی ان دونوں صفات سے خالی نہیں ہے۔
ایسے ہی جب کہتے ہیں : موجود واجب ہے تو اس میں نقیضین سے مجرد ہونے کی شرط لگاتے ہیں ۔ یہ بھی ان کے ہاں تناقض ہے۔
ان کے عقیدہ کی حقیقت یہ بنتی ہے کہ موجود موجود نہیں اور واجب واجب نہیں ۔ یہاں پران کی انتہا ہوجاتی ہے۔ یہ یاتوجمع بین النقیضین ہے یا پھر رفع النقیضین۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حیرانگی میں سرگرداں پھرتے ہیں اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔ان کے ہاں انبیا و اولیا ائمہ وفلاسفہ
|