کی معرفت کی منتہا یہی ہے۔
ان کی گمراہی کی اصل یہ ہے کہ یہ لوگ اس چیزکوتشبیہ سے تنزیہ شمار کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک جب بھی کوئی مثبت یا منفی صفت بیان کی جائے تواس میں تشبیہ کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اور ان کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ جس تشبیہ کی اللہ تعالیٰ سے نفی کی گئی ہے وہ وہ تشبیہ ہے جس میں اسے مخلوق کے خصائص میں سے کسی چیز کے ساتھ تشبیہ دی جائے یا اس کی کسی صفت کو مخلوقات میں سے کسی کی صفت کی مانند قراردیا جائے ۔وہ بھی اس طرح سے کہ یہ عقیدہ ہوکہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی وہ چیز جائز ہے جو مخلوقات کے لیے جائز ہے۔یا اس کے لیے بھی وہ چیز واجب ہے جو مخلو قات کے لیے واجب ہے۔ یا اس پر بھی وہ چیز ممتنع ہے جو مخلوقات پرمطلق طور پر ممتنع ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شرع کیساتھ ساتھ عقلا بھی یہ مثال ممتنع ہے۔ پس یہ ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی نقائص کے اوصاف بیان کیے جائیں ۔اور یہ بھی ممتنع ہے کہ صفات کمال میں کوئی د وسرا اس کے مماثل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کے لیے یہ دو جامع اصول ہیں ۔جیسا کہ ہم نے کئی مواقع پر بیان کیا ہے۔ اس پر دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ Oاَللّٰہُ الصَّمَدُ Oلَمْ یَلِدْ ۵ وَلَمْ یُوْلَدْ Oوَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾
’’فرما دیجیے: وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔‘‘
ہم اس سورت کی تفسیر میں ایک منفرد کتاب میں تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے۔
رہا اسما میں موافقت کا مسئلہ ؛جیسے حیی اورحیی ؛ موجود اور موجود اور علیم اور علیم ؛تو ایسا ہونا ضروری ہے۔ اورجس نے اس کی نفی کی ہے اس پر تعطیل محض لازم آتی ہے۔ اس لیے کہ موجودین میں سے ہر ایک بذات خود قائم ہے۔پس اس وقت ضروری ہوجاتا ہے کہ ایک ایسا اسم عام ان دونوں کوجمع کرے جو عام معانی پر دلالت کرتا ہو۔لیکن معنی عام صرف ذہن میں ہی پائے جاتے ہیں خارج میں ان کا وجود نہیں ہوتا۔
جب یہ کہا جائے کہ :یہ بھی موجود ہے اور یہ بھی موجود ہے تو یہ دونوں مسمی وجود میں مشترک ہوئے۔ جس چیز میں یہ دونوں شریک ہیں وہ مشترک صرف ذہن میں ہے خارج میں نہیں ۔ اور ہر موجود جو اپنی ذات اور صفات کے ساتھ مختص ہے اس میں کوئی چیز باہر سے اس کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتی۔ بلکہ یہ اشتراک ایک قسم کی مشابہت اور اتفاق ہے۔اور اس میں مشترک کلی بھی صرف ذہن میں پایا جاتا ہے۔ سو جب یہ خارج میں پایا جائے تو وہ اپنے نظیر سے متمیز اور جدا نہیں ہوا۔اورنہ ہی وہ وہی ہوتا ہی۔اورنہ ہی وہ دونوں خارج میں کسی خارجی چیز میں مشترک ہوتے ہیں ۔ پس جب خالق کا نام مخلوق کے نام سے مشابہ ہو جیسے موجود اورحیی۔توکہا جائے گا کہ یہ اسم عام کلی ہے۔ یہ متواطی یا متشکک اسماء میں سے ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس مسمی اسم کے اعتبار سے رب کی جو صفات ہیں مخلوق بھی ان میں شریک ہو۔ بلکہ مخلوق میں سے جس کسی دوسرے کا اگر ایسا نہ ہو تووہ بھی اس کے ساتھ مواصفات میں شریک نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کا وجود اس کے
|