Maktaba Wahhabi

405 - 764
کرتا تھا۔اورپرانے مجوسیوں کے دین کے زیادہ قریب تھا۔ یہ بھی اسماعیلیہ باطنیہ کی کاپی تھا۔ جادوگری اور پانسہ بازی میں ید طولی رکھتا تھا۔ صلاح الدین رحمہ اللہ کے زمانہ میں مسلمانوں نے اسے شہر حلب میں زندیقیت کی وجہ سے قتل کردیا تھا۔ یہی حال ابن سبعین کا ہے جو مغرب سے مکہ آیا تھا۔اس کی بھی چاہت یہ تھی کہ وہ نبی بن جائے ۔اس نے اس غار حراء کی تجدید کی جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع میں وحی نازل ہوئی تھی۔ اس ے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کہاکرتا تھا: آمنہ کے بیٹے نے جھوٹ بولا اورکہا:’’لا نبِی بعدِی۔‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ یہ انسان فلسفہ اور متصوفین کے متفلسفہ اور اس سے متعلقہ علوم کا ماہر تھا۔ یہ اور ابن عربی اوران کے امثال جیسے صدر قونوی ؛ابن فارض تلمسانی وغیرہ کا منتہائے امر وحدۃ الوجود کاعقیدہ تھا۔ اور یہ کہ بلاشبہ خالق قدیم واجب الوجودوہی وجود ممکن محدث مخلوق ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ پھر جب دیکھا کہ مخلوقات متعدد ہیں تو کبھی یہ کہنے لگے کہ: مظاہر اورمجالی۔ جب ان سے کہا جاتا کہ:اگر مظاہر امر وجودی تعدد الوجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ یا اس طرح کا کلام کیا جاتا جس سے واضح ہوتا ہو کہ وجود کی دو قسمیں ہیں : خالق اور مخلوق۔ تو اس کے جواب میں کہتے : ہم اپنے ہاں کشف میں اس چیزکو ثابت مانتے ہیں جو صریح عقل کے خلاف ہوتی ہے۔اور جو کوئی ہماری طرح محقق بننا چاہتا ہے اس کے لیے جمع بین النقیضین کرنا لازم ہے ۔ اور یہ ایک جسم ایک وقت میں دو جگہ پر ہوسکتا ہے۔ ان اصناف کے بارے دوسرے مقامات پر تفصیل کیساتھ کلام گزر چکا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کی کثرت جہالت میں مبتلا علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ شیعیت کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ جیساکہ ابن عربی ابن سبعین اور ان کی مانند دوسرے لوگوں کا حال تھا۔پس لوگوں کوان کے حقائق سامنے لانے اور ان امور کو بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جن کی وجہ سے حق اور باطل میں پہچان حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کا اپنے متعلق دعوی ہے کہ وہ روئے زمین کے سب سے افضل لوگ ہیں ۔اور لوگ ان کے اشارات کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ چیز آسان کردی تو میں نے ان کے حقائق کو بیان کردیا۔اور ان کے متعلق کتابیں لکھیں جن سے ان کو بھی علم ہوگیا کہ ان کے عقیدہ کی حقیقت یہ ہے۔اور نقل صحیح اورعقل صریح اور کشف مطابق سے اس کا بطلان بھی ثابت ہوگیا۔جس کی وجہ سے ان کے علماء و فضلاء نے حق کی طرف رجوع کیا۔اور پھر یہی حضرات لوگوں کے سامنے ان کا تناقض ثابت کرنے اور انہیں حق کی طرف واپس بلانے لگے۔ ان کی گمراہی کے اصولوں میں سے یہ بھی تھا کہ : وجود مطلق خارج میں بھی پایا جاتا ہے۔یا تووہ مطلق بغیر کسی شرط کے ہوتا ہے یا پھرمطلق مشروط ہوتا ہے۔مطلق غیر مشروط وہ ہے جسے وہ کلی طبیعی کا نام دیتے ہیں ۔ جب کہا جائے کہ یہ تو خارج میں موجود ہے۔ اور جو معین مقید خارج میں موجود ہووہ ذہن میں مطلق ہوتا ہے اور خارج میں مقید۔ رہے وہ لوگ جن کا یہ خیال ہے کہ جو چیز ذہن میں مطلق ہوتی ہے وہ خارج میں بحالت تحقق مطلق ہوتی ہے تو یقیناً ایسا انسان بہت بڑی ایسی غلطی کا ارتکاب کررہا ہے جس میں بہت سارے اہل منطق و فلسفہ گمراہ ہوگئے۔
Flag Counter