ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب اورمرتدین سے جنگیں لڑیں ۔ حالانکہ اس وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی وجہ سے مسلمان بہت زیادہ کمزور پڑ گئے تھے۔ اور اکثر بستیوں والے مرتد ہوگئے تھے۔ اور شہر لوگوں کے دلوں میں بہت کمزور آگئی تھی۔ اور بہت سارے لوگ مانعین زکواۃ سے جنگ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔
پھر آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے ۔ انہوں نے وقت کی دو بڑ طاقتوں [سپر پاورز] سے جنگیں لڑیں ۔ اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ اہل حجاز اور اہل یمن ان لوگوں سے جنگیں لڑیں اور انہیں مغلوب کردیں ۔ یہ طاقتیں روم اورفارس کے ملک تھے۔ آپ نے ان کو مغلوب کیا اور ان کے شہر فتح کیے۔اور پھر جو کچھ فتوحات باقی رہ گئی تھیں مشرق و مغرب میں وہ فتوحات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مکمل کردیں ۔ پھر اس کے بعد بنو امیہ کی خلافت میں مشرق و مغرب میں مزید فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا۔ جیسا کہ ما ورا النہر اور اندلس وغیرہ کے علاقے فتح ہوئے۔ یہ فتوحات عبد الملک کے دور میں ہوئیں ۔
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر نبی کریم رضی اللہ عنہم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے علاوہ کس اور کو خلیفہ بنایا جاتا؛ مثلا حضرت عثمان یا حضرت علی رضی اللہ عنہما ؛ تو ان حضرات کے لیے وہ کچھ کرنا ممکن نہ تھا جو قبل الذکر حضرات نے کارنامے دکھائے۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے دور میں قوت اور کثرت کے باوجو وہ کچھ نہ کرسکے جو حضرات شیخین نے کر دکھایاتھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ عاجز آگئے تھے۔آپ کے مددگار و اعوان حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اعوان و مددگاران کی نسبت زیادہ کثرت کے ساتھ تھے۔ اور دشمن کم تھے۔ اورحضرات شیخین کے دشمنوں کی نسبت اسلام کے زیادہ قریب تھے ۔ مگر اس کے باوجود آپ اپنے دشمن کو مغلوب نہ کرسکے۔ تو پھر آپ کے لیے مرتدین کو مغلوب کرنا کیسے ممکن ہوتا۔ اور پھر انہوں نے اپنی کم تعداد اور دشمن کی شوکت و سطوت کے باوجود روم اور فارس کو مغلوب کیا۔
اس سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراور آپ کے بعد تمام لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام نعمت واضح ہوتے ہیں ۔اور اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی خلافت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑ نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔ اس لیے کہ ان کے بجائے اگر کوئی دوسرا خلیفہ بنتا تو وہ وہ کام نہ کرسکتا جو ان دو حضرات نے کیا۔ انہیں یا تو ان چیزوں پر قدرت ہی نہ ہوتی یا پھر ان کے ذہن و ارادہ میں ہی یہ بات نہ آتی۔
جب یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پرغلبہ کیوں نہ حاصل ہوا؟لازمی طور پر اس کا کوئی سبب ہونا چاہیے۔ یا تو اس پر کمال قدرت نہ ہو؛ یا پھر کمال ارادہ نہ ہو۔ کیونکہ جب کمال قدرت کے ساتھ کمال ارادہ پائے جائیں تو فعل کا وجود واجب ہو جاتاہے۔ اور تمام قدرت میں متبعین [پیروکاروں ]کی اطاعت بھی شامل ہے۔ اور تمام ارادہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ چیز زیادہ مناسب؛ فائدہ مند اور اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے والی ہو۔
حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قدرت و امکان کمال درجہ کے تھے اور ان کا ارادہ بھی بہت ہ افضل و عمدہ تھا۔ پس اللہ
|