Maktaba Wahhabi

343 - 764
اس طرح کی کوئی بات انصار میں بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ کیونکہ آپ نے ان کے اقارب میں سے کسی ایک کو قتل نہیں کیا تھا۔ اور یہاں پر شوکت اور غلبہ حاصل تھا۔ اور نہ ہی بنی تیم یا بنی عدی میں سے کسی ایک کو قتل کیا ۔ اور نہ ہی دوسرے بہت سارے قبائل میں سے کسی ایک کوقتل کیا۔ اور جن قبائل میں سے لوگ قتل ہوئے جیسے بنو عبد مناف؛ تو وہ آپ کے موالین میں سے تھے۔ اور وہ آپ کی ولایت چاہتے تھے۔ اس لیے کہ آپ ان لوگوں کے زیادہ قریب تھے۔ پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نص آپ کی خلافت پر کوئی نص ہوتی ؛ یا آپ افضل اور ولایت و خلافت کے مستحق ہوتے ؛ تو پھر یہ معاملہ کوئی ایسا نہیں تھا کہ مخفی رہ جاتاہے۔ اور اس بات کا علم ہونا اس بات کو واجب کرتا تھا کہ یہ لوگ خلافت حاصل کرنے کے ارادہ سے اٹھ کھڑے ہوں ۔ کیونکہ یہاں پر کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو کہ رکاوٹ بن جاتا۔ اور اس وقت میں احوال و اسباب بھی اس چیز کے مدد گار ثابت ہوتے اور کوئی ان سے ٹکرانے کی کوشش بھی نہ کرتا۔ اصل میں حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ ٹکرانے والا کوئی نہیں تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت بہت تھوڑے سے کچھ لوگ ایسے تھے جو کہ رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے تھے؛ تو پھر بھی جمہور مسلمین میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو کہ اس راہ میں رکاوٹ بنتا۔ بلکہ وہ اس بات پر قادر تھے کہ آپ کو خلیفہ بنا دیا جائے۔ اور اگر انصار یہ بات کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر اور حضرت سعد رضی اللہ عنہما کی نسبت خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ؛ تو پھر مہاجرین کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو روک سکیں ۔ اور اکثر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ۔ خاص طور پر ان لوگوں کی اکثریت جن کے دلوں میں کچھ کمزوری تھی؛ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شدت کی وجہ سے انہیں نا پسند کرتے تھے۔اور کفار اور منافقین کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نفرت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کی نسبت اتنی سخت اور زیادہ تھی کہ ان کے مابین کوئی مقابلہ ہوہی نہیں سکتا۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہیں بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ کفار بطور خاص آپ سے بغض رکھتے ہیں ۔ آپ سے اتنا ہی بغض تھا جتنا دوسرے مسلمانوں سے۔ بخلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے؛ اس لیے کہ آپ ان کے خلاف بہت سخت تھے۔ تو اس کا تقاضا تھا کہ وہ اس طرف سے نفرت کریں جس طرف حضرت عمر ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلیفہ متعین کیا تو ایک گروہ نے اس معاملہ پر سخت نا پسندیدگی کااظہار کیا۔حتی کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’ ہم پر آپ نے اتنے تند خو اور سخت مزاج انسان کو خلیفہ مقرر کردیا ہے؛ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ کیا تم اللہ تعالیٰ سے مجھے ڈرا رہے ہو؟ تو میں کہوں گا: تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ بناآیا ہوں ۔‘‘ جب اہل حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؛ اور اہل باطل بھی آپ کے ہمراہ ۔ تو پھر آپ کو کون مغلوب کرسکتا تھا جب حق آپ کے ساتھ تھا۔ اور تصور کیجیے کہ وہ آپ کے ساتھ کھڑے تو ہوئے تھے ؛ مگر غالب نہ آسکے تو کیا ایسے مواقع کے معروف اسباب اس بات کو واجب نہیں کرتے تھے کہ اس موقع پر قیل و قال ہو؛ اور ایک قسم کا جھگڑا کھڑا ہوجائے۔ تو
Flag Counter