خیر کیا کرتے تھے۔
تو درایں صورت یہ حضرات یا تو ظاہری اور باطنی طور پر استقامت پر ہوں گے؛ آپ کی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ یا پھر ان کا معاملہ اس کے خلاف ہوگا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی؛۔پس اگر اس قربت کے باوجود بھی وہ استقامت پر نہ تھے تو پھر دو باتوں میں سے ایک لازم آتی ہے:
۱۔ یا تو آپ کو ان کے احوال کا علم نہیں تھا۔
۲۔ یا پھر آپ ان کے ساتھ مداہنت کیے ہوئے تھے۔
ان میں سے جو بھی بات ہو؛ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت بڑی قدح اور تنقید ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:
(( إن کنت لا تدری فتلک مصیبۃ و إن کنت تدری فالمصیبۃ أعظم))
’’اگر آپ نہیں جانتے تو یہ ایک مصیبت ہے اور اگر جانتے ہیں تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے ۔‘‘
اگریہ لوگ استقامت کے بعد منحرف ہوگئے تھے؛ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے خواص امت اور اکابر صحابہ میں بہت بڑی ذلت و رسوائی تھی -معاذ اللہ - اور ان لوگوں کے سامنے بھی جن کو آپ نے خبر دی تھی کہ آپ کے بعد کیا ہوگا۔ تو پھر آپ کو ایسی چیزوں کا علم کیون نہ ہوسکا۔ اور پھر وہ احتیاط کہاں گئی کہ اس امت پر کسی ایسے ویسے کو والی نہ بنایا جائے۔ اور وہ لوگ کہاں گئے جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین باقی تمام ادیان پر غالب آئے گا۔ اور آپ کی امت کے اکابر اور خاص الخواص لوگ کیسے مرتد ہوگئے؟
یہ بات ؛ اور طرح کی دیگر کئی ایسی ہی باتیں جن کے ذریعہ روافض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قدح کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ :
’’ ان رافضی لوگو ں کا ارادہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن زنی کریں ؛ تاکہ لوگ کہہ سکیں کہ یہ کتنا ہی برا آدمی تھا جس کے ساتھے اتنے برے ہیں ۔ اگر وہ کوئی اچھا آدمی ہوتا تو اس کے ساتھی بھی اچھے لوگ ہوتے ۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اہل علم لوگ فرماتے ہیں : ’’ بیشک روافض زندیقوں کی دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہیں ۔ اور ان کی بنیاد ان ہی پر رکھی گئی ہے۔
ایک دوسرے لحاظ سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ : ’’ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے مستحق ہوتے ؛ تو اس کے اسباب قوی تھے؛اور کوئی ایسی رکاوٹ والی چیز بھی نہیں تھی۔اور قدرت بھی حاصل تھی ۔ اور اس کے ساتھ ہی دواعی اور اسباب بھی موجود تھے۔ قدرت اور انتفاء صارف کی صورت میں فعل کا حاصل ہونا واجب ہوجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد تھے اور نسب کے اعتبار سے ان سب میں سے افضل لوگوں میں سے تھے۔ اور آپ کی کسی ایک کیساتھ دشمنی بھی نہ تھے۔ نہ ہی نسب کی عداوت اور نہ ہی اسلام کی وجہ سے ۔ کوئی کہنے والا یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے جاہلیت میں اپنے اقارب میں سے کسی ایک کو قتل کیا ہو۔
|