Maktaba Wahhabi

341 - 764
سفیان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا تھا کہ قرابت داری کی وجہ سے انہیں خلیفہ بنایا جائے۔ اورجب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو ان کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ سے جب یہ کہا گیا کہ آپ کا بیٹا خلیفہ بنا ہے ؛ تو اس نے کہا : کیا بنو مخزوم اور بنو عبدمناف رضا مند ہیں ؟‘‘ لوگوں نے کہا، ہاں ! ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا [اورکہا:’’یہ خاص عنایت ایزدی ہے۔‘‘] [طبقات ابن سعد (۳؍۱۸۴)] اس لیے کہ ابو قحافہ کو علم تھا کہ بنو تیم تمام قبائل سے کمزور قبیلہ ہے۔ اور اشراف قریش کا تعلق ان دو قبیلوں سے تھا۔ یہ بات ہوگئی۔ اب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امثال و ہمنوا؛ اگر کوئی عقل مند اس پر غور و فکر کرے؛ تو اسے یقین ہو جائے گا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صرف اس لیے مقدم کیا اللہ اور اس کے رسول نے آپ کو تقدیم بخشی تھی۔کیونکہ آپ ان تمام لوگوں میں سے بہتر؛ ان کے سردار اور اللہ اور اس کے رسول کے محبوب تھے ۔ اس لیے کہ اسلام کسی کو بھی تقوی کی بنیاد پر ترجیح و تقدیم دیتاہے۔اورابوبکر ان سب سے بڑے متقی تھے۔ یہاں پر تاریخی روایت کی تحقیق اور چھان بین کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے ۔ وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((خیر القرونِ قرنِی، ثم الذِین یلونہم ثم الذِین یلونہم ؛ ثم الذِین یلونہم)) ’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے؛ پھر جو اس کے بعد ہے؛ پھر جو اس کے بعد؛ پھر جو اس کے بعد ۔‘‘ یہ امت تمام امتوں سے بہترین امت ہے۔ جیسا کہ کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے۔ مزید برآں جو کوئی بنو امیہ کے دور میں مسلمانوں کے احوال پر غور و فکر کرے گا؛ -خلفائے راشدین کا زمانہ تو بہت بڑی بات ہے-؛ تو اسے یقینی علم حاصل ہوگا کہ وہ لوگ اس زمانہ کے لوگوں سے بہت بہتر تھے۔ اور ان کے زمانہ میں اسلام زیادہ مضبوط اور غالب تھا۔ اگر قرن اول کے لوگوں نے ان پر متعین کردہ منصوص علیہ امام کی امامت سے انکار کردیا تھا؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ان کی وراثت کا حق روک دیا تھا۔ اور ایک فاسق اور ظالم کو خلیفہ مقرر کرکے ایک عادل اور عالم کو اس کے حق سے محروم کردیا؛ حالانکہ انہیں اس حق کا علم بھی تھا؛ تو پھر یہ سب سے بدترین مخلوق ٹھہرے بہترین نہیں ۔اور یہ امت پھر سب سے بدترین امت ہوئی۔ کیونکہ اگر ان کے بہترین لوگوں کے یہ کرتوت ہیں تو ان کے بدترین لوگوں کا کیا عالم ہوگا۔ یہاں پر ایک دوسری چیز بھی ہے ؛ وہ یہ کہ یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے؛ اور عوام و خواص میں سے کسی ایک پر بھی مخفی نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بڑے خاصان ِ خواص میں سے تھے۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ خصوصی مقام انہی حضرات کو حاصل تھا۔صحبت میں بھی؛ قربت میں بھی؛ اور آپ کے ساتھ تعلق میں بھی۔ آپ نے ان تمام سے سسرالی رشتے بھی قائم کیے۔اور کبھی آپ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ نے ان کی مذمت کی ہو؛ یا ان پر لعنت کی ہو۔ بلکہ مشہور و معروف بات یہی ہے کہ آپ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کا ذکر
Flag Counter