حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل منقول ہیں ۔ جن کا تقاضا ہے کہ آپ امامت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور یہ کہ آپ کی امامت منصوص علیہ تھی۔ تو درایں صورت اس کے مقابلہ میں وہ خاص منقولات پیش کی جائیں گی؛ جو کہ ان سے زیادہ سچی اورکثرت تعداد میں ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں اور ان کا تقاضا ہے کہ آپ خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور نصوص اس چیزپر دلالت کرتی ہیں ۔
کوئی بھی حجت ایسی نہیں ہے جو کوئی شیعہ پیش کرے؛ مگر اس کے مقابلہ میں سنی کے پاس اس جیسی دلیل ہوگی جواسی جنس سے ہوگی اور اس سے زیادہ اولی اور بہتر ہوگی۔ اس لیے کہ اسلام میں سنت ایسے ہی ہے جیسے باقی ملتوں میں اسلام ۔ پس کوئی دلیل اور حجت ایسی نہیں ہے جس پر کوئی کتاب عمل پیرا ہو مگر مسلمان کے پاس اس کے مقابلہ میں ایسی دلیل ہوگی جو اس کی نسبت اتباع کی زیادہ حق دار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ [الفرقانِ: 33]
’’اور وہ تیرے پاس کوئی مثال نہیں لاتے مگر ہم تیرے پاس حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں ۔‘‘
لیکن خواہشات کے پجاری کی اس کی جہت میں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ جب اس کا مخالف کوئی ایسی چیز بیان کرتا ہے جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو تو اس پر اس کی سماعت اور اتباع بہت گراں گزرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَوْ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَائَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ﴾ [المؤمِنون 71]
’’اور اگر حق ان کی خواہشوں پرچلے تو یقیناً سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، بگڑ جائیں ‘‘
یہاں پر ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔وہ یہ کہا جائے گا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں کی طبیعتیں اتباع حق کی طرف متوجہ تھیں ۔ اور انہیں اس راہ سے ہٹانے والی کوئی چیز نہ تھی۔ اوروہ ایسا کرنے پر قادر بھی تھے۔ جب حق کا داعی موجود ہو؛ اور [صارف یعنی] اس سے ہٹانے والا بھی کوئی نہ ہو ؛ تو فعل کا حصول واجب ہوجاتا ہے ۔‘‘
یہ با ت معلوم شدہ ہے کہ مسلمانوں نے جو کچھ کیا؛ اس میں انہوں نے حق کی اتباع کی ہے۔ اور یہ کہ بلاشبہ وہ تمام امتوں میں سے بہترین لوگ تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ان کا دین مکمل کردیا تھا۔ اوران پر اپنی نعمتیں تمام کردی تھیں ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تک کوئی ان کی دنیاوی غرض بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں ترجیح دیتے۔ اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی ایسی دنیاوی غرض یا معاملہ تھا جس کی وجہ سے انہیں پیچھے کرتے۔ بلکہ اگر وہ اپنی طبیعت کے حساب سے بھی کوئی فیصلہ کرتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتے۔اور انصار کا بھی یہ عالم تھا کہ اگر وہ اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے کسی کو ترجیح دیتے توان کے نزدیک بنی ہاشم کے کسی آدمی کی اتباع کرنا بنی تیم کے آدمی کی اتباع کی نسبت زیادہ محبوب ہوتا۔ یہی حال اکثر قریشی قبائل کا تھا؛ بالخصوص بنو عبد مناف اور بنو مخزوم کا۔ اس لیے کہ بنو مناف کے کسی آدمی کی اطاعت کرنا ان کے نزدیک بنی تیم کے آدمی کی اطاعت سے زیادہ محبوب تھی؛ اگر یہ لوگ خواہشات نفس کے پجاری ہوتے تو۔ اور ابو سفیان بن حرب اور اس کے امثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقدیم کو زیادہ چاہتے تھے۔اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ ابو
|