Maktaba Wahhabi

339 - 764
یا تو پھر یہ کہا جائے کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو زمین میں فساد اور سرکشی چاہتے تھے؛ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ فساد فی الارض اور سرکشی نہیں چاہتے تھے؛ حالانکہ دونوں حضرات کی سیرت صاف ظاہر ہے ؛ تو یہ کھلم کھلا تکبر اور حق بات کاانکار ہوگا۔ دونوں حضرات کی سیرت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس مؤقف پر دلالت کرتی ہو۔ بلکہ تواتر کے ساتھ خبریں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سیرت افضل و اولی و اعلی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں اس قسم کا دعوی کرنے والے ایسی محال چیزیں بیان کرتے ہیں جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ۔ اور پھر کہتے ہیں کہ : آپ کی خلافت پر نصوص موجود تھیں مگر انہیں چھپا دیا گیا۔ مگر اس کے باوجود وہ باطنی دشمنی کہیں پر ظاہر نہ ہوئی جس کی وجہ سے ان سے ان کا حق چھینا گیا۔ اب یہاں پر ہمارا مقصود وہ چیز بیان کرنا ہے جو کہ عوام و خواص میں تواتر کے ساتھ علم یقینی کے طور پر معلوم ہے۔ رہ گئے وہ امور جو بیان تو کیے جاتے ہیں مگر جمہور ان کا انکار کرتے ہیں اور وہ بدگمانیاں جن کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ ہم ان کے فساد اور بطلان کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔ پس ایسی چیزوں کو بطور دلیل پیش کرنے والاصرف بدگمانی اور خواہشات نفس کا پجاری ہے۔ اس کا تعلق کفار اور اہل باطل کی جنس سے ہے۔ یعنی احادیث کے مقابلہ میں دوسری ادھر ادھر کی چیزیں پیش کرنا۔ ہم نے تو ان اخبار سے بھی احتجاج نہیں کیا جو طرفین نے روایت کی ہیں ؛ تو پھر اس بد گمانی کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے جو حق کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آئے۔ یہ بات عوام و خواص کو تواتر کے ساتھ علم یقینی کے طور پر معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمرو عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی نسبت فساد فی الارض اور علو و سرکشی کے ارادہ سے بھی بہت دور تھے؛ کجا کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کی جائے ۔اور آپ بعد میں آنے والے تینوں خلفاء کی نسبت زیادہ اور بدرجہ اولی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے حصول اور اصلاح فی الارض کے متمنی اور طلبگار تھے؛ کجا کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کی جائے ۔اور یہ کہ آپ سیاست اور عقل میں ؛ اور دین داری میں ان تینوں حضرات کی نسبت زیادہ کامل تھے۔اور یہ کہ امت پر آپ کی ولایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کی نسبت بہت زیادہ بہتر تھی۔اور مسلمانوں کو آپ کی وجہ سے حاصل ہونے والی دین و دنیا کی منفعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حاصل ہونے والی منفعت کی نسبت بہت زیادہ تھی- رضی اللہ عنہم -۔ جب ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ مجتہد تھے؛ اور اپنے فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے طلب گار تھے۔ اور یہ کہ جو مصلحت کے کام آپ نے ترک کردیے تھے؛ حقیقت میں آپ ان کو بروئے کار لانے سے عاجز آگئے تھے۔ اور جو کچھ خرابیاں آپ کے دور میں پیش آئیں ؛ آپ ان کو روکنے سے عاجز اور معذور تھے۔ اور یہ کہ آپ زمین میں فساد اور سرکشی نہیں پھیلانا چاہتے تھے۔ تو یہی عقیدہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق رکھنا زیادہ اولی اور مناسب ہے ۔ کوئی ایک بھی اس توجیہ سے ٹکراؤ کی قدرت نہیں رکھتا ؛ سوائے اس کے جو یہ خیال کرتا ہو کہ یہ نقل صرف نقل خاص میں سے ہے؛ جیسا کہ
Flag Counter