خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق گواہی دی جاسکتی ہے کہ یہ حضرات اولیاء اللہ المتقتین میں سب سے افضل تھے۔ بلکہ یہ چار حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے افضل ترین ہستیاں ہیں ۔ لیکن جب کوئی قدح کرنے والا آئے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ کہے کہ: ’’یہ دونوں حضرات ظالم اورسرکش تھے؛ ریاست اور حکومت کی ہوس کے مارے ہوئے ؛ لوگوں کے حقوق غصب کرنے والے تھے۔ اورتمام لوگوں سے بڑھ کر حکومت کی لالچ رکھتے تھے۔اور یہ کہ ان دونوں نے نصوص شریعت کی روشنی میں خلافت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے متعین کردہ مستحق خلیفہ پر ظلم کیا۔ اور اہل بیت کو ان کی میراث سے محروم کردیا۔ اوریہ اصحاب تمام لوگوں سے بڑھ کر حکومت اور ریاست کے حریص اور باطل کے لالچی تھے۔حالانکہ جن کو ان حضرات کی سیرت معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ بدگمانی درست ہے تو پھر اس کے حق میں زیادہ درست ہے جس نے خلافت کے لیے جنگ لڑی اور پھر مغلوب ہوگیا۔ اورآپ کے اور فریق منازعہ کے درمیان لڑائی میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ لیکن اس جنگ و جدل اور قتال سے نہ ہی کوئی دینی مصلحت پوری ہوئی اور نہ ہی دنیاوی مصلحت ۔ اور نہ آپ کے عہد خلافت میں کوئی کافر قتل ہوا۔ پس بیشک اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے مابین فتنہ برپا کرنے پر خوش نہیں ہوئے؛ اور نہ ہی آپ کے شیعہ اس پر خوش ہوئے تھے ۔ اس لیے کہ آپ کو غلبہ نصیب نہیں ہوا تھا۔ اور جن لوگوں سے آپ نے جنگ لڑی تھی ؛ وہ ویسے ہی قوت اور طاقت سے بہرور حفاظت میں رہے۔
جب ہم خوارج کے طعن و تنقید سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہیں ۔حالانکہ یہاں پر شبہ ظاہر اورموجود ہے؛ تو پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر طعن و تنقید کرنے والوں سے ان کا دفاع کرنا زیادہ اولی اور مناسب ہے۔اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا گمان رکھنا جائز ہے کہ آپ جاہ و مرتبہ کے اور حکومت کے طلبگار تھے؛ حالانکہ آپ سے جو کچھ معلوم ہے؛ وہ اس کے خلاف ہے۔ تو پھر جس نے اپنی ولایت اور خلافت کے لیے جنگ لڑی؛ مگر اسے مقصود پھر بھی حاصل نہ ہوا؛ تو پھر وہ اس گمان کا زیادہ ہوں ۔
جب اس کے لیے دو مسجدوں کے ائمہ سے ضرب المثال بیان کی جائے؛ یا کسی جگہ کے دو مشائخ سے مثال بیان ہو؛ یا کسی مدرسہ کے دو اساتذہ سے مثال بیان کریں ۔تو تمام عقول ایک ہی بات کہیں گے کہ:یہ پھلا انسان ریاست اور حکومت کی طلب سے بہت دور تھا۔ اور دین اور خیر کی بھلائی کے ارادہ کے بہت قریب تھا۔
جب ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ آپ دین اور حق کے قاصد اور طلبگار تھے۔ اور آپ زمین میں سرکشی اور فساد ہر گز نہیں پھیلانا چاہتے تھے۔ تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق یہ ایمان و یقین رکھنا زیادہ اولی اور مناسب ہے۔
اگر کوئی بدگمانی رکھنے والا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ گمان رکھے کہ آپ زمین میں سرکشی اور فساد پھیلانا چاہتے تھے۔ تو یہی بدگمانی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بدگمانی زیادہ اولی اور معقول ہے۔
|