کا عالم تھے؛ اور جیسا کہ یحی بن معین اور علی بن المدینی رحمہما اللہ اور ان کے امثال علوم حدیث کی معرفت رکھنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک رہا ہے۔
مسلم بن حجاج رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح مسلم میں ابو داؤد رحمہ اللہ کی نسبت احادیث کی صحت کا زیادہ اہتمام کیا ہے۔ جب کہ ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’السنن ‘‘میں فقہ کا اہتمام زیادہ کیا ہے۔ جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں چیزوں کا خیال رکھاہے۔
یہاں پر مقصود ان باتوں میں کلام کو وسعت دینا نہیں ۔ بلکہ مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ علم حدیث رکھنے والے علماء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کی معرفت دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ وہ اس میدان کے امام ہیں ۔ بیشتر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی انسان سچا ہوتا ہے؛ اور اس کی روایات ِ حدیث بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں ۔ لیکن اس کے ہاں صحیح اور سقیم کی معرفت کا اہتمام نہیں پایا جاتا۔ پس اس کی نقلِ روایت سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے؛ کیونکہ سچا اور بات کو یاد رکھنے والا ہے۔جب کہ صحیح اور سقیم کی معرفت ایک دوسرا علم ہے۔ اور بیشتر اوقات کوئی ایک اس کے ساتھ ہی فقہی اور مجتہد ہوتا ہے اور کوئی انسان نیک اور اچھے مسلمانوں میں سے ہوتا ہے لیکن اس کی معرفت اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔
لیکن یہ لوگ اگرچہ علم میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں ؛ اور ان میں جھوٹ کو ایسے پذیرائی نہیں ملتی جیسے ان لوگوں میں اسے پذیرائی مل جاتی ہے جنہیں علم نہ ہو۔ لیکن یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کی معرفت جتنی زیادہ ہوگی ؛ اسے سچ اور جھوٹ کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت بھی اتنی ہی زیادہ حاصل ہوگی۔ کبھی اہل تفسیر ؛ اہل فقہ و زہد اور مناظرین کے مابین بہت سی احادیث مشہور ہوتی ہے؛ جن کو یا تو وہ خود سچ کہتے ہیں یا پھر ان کے سچا ہونے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ جب کہ علم حدیث کے ماہرین علماء[محدثین] کے ہاں وہ روایت جھوٹ ہوتی ہے۔
بسا اوقات یہ حضرات ایسی حدیث کو صحیح کہتے ہیں جو محدثین[ماہرین حدیث] کے نزدیک جھوٹ ہوتی ہے۔ مثلاً وہ حدیث جسے فقہاء کرام کا گروہ نقل کرتا چلا آیا:
((لا تفعلِی یا حمیراء فإِنہ یورِث البرص۔))
’’اے حمیرا! ایسے نہ کرنا؛ بیشک اس سے برص پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
اورحدیث: ((زکاۃ الأرضِ نبتہا۔))
’’زمین کی زکات اس کی نباتات [پیداوار ہیں ]۔‘‘
اورحدیث: (( نہِی عن بیع وشرط، ونہِی عن بیعِ المکاتبِ والمدبرِ وأمِ الولدِ۔))
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرید نے اور شرط لگانے سے منع کیا؛ اور منع فرمایا کہ مکاتب اور مدبر یا ام ولد کو بیچا جائے ۔
اورحدیث:((نہِی عن قفِیزِ الطحان))۔
’’چکی والے کی کمائی لینے سے منع فرمایا۔‘‘
|