شکل میں قرآن جمع کرنا؛پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے ایک مصحف کی شکل میں جمع کیا ۔ اور پھرمختلف شہروں میں ارسال کیا۔ پس اس وقت قرآن جمع کرنے اور اس کی تبلیغ کا اہتمام دوسرے تمام امور کی نسبت بہت زیادہ رہا ہے۔
یہی حال مختلف شہروں میں شرائع اسلام کی تبلیغ کا بھی رہا ہے۔ اور اسی چیز پر ان کے ساتھ قتال بھی ہوتا رہا۔ اور امراء و علماء اس معاملہ میں نیابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اور یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے اقوال و افعال لوگوں تک پہنچاتے رہے۔پس یہ تبلیغ ان اہل علم تک پہنچی جنہوں نے اس دین کوقائم کیا؛ اور یہ نقل نقل متواترِ ظاہر اور ایسی معلوم شدہ ہوگئی جس سے حجت قائم ہوسکے۔ اورراہِ حق بالکل واضح ہوجائے۔ اور اس سے بالکل یہ بھی واضح ہوگیا یہ حضرات ہدایت یافتہ خلفائے راشدین تھے جو علم و عمل کے لحاظ سے اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰیo مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰیo﴾[النجم۱۔۴]
’’قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے ! کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے ۔‘‘
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی راہ سے ہٹے؛ اور نہ ہی بہکے۔ یہی حال خلفائے راشدین کا بھی تھا۔جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
((علیکم بسنتي و سنۃ خلفاء الراشدین المہدیین من بعدي تمسکوا بہا و عضوا علیہا بالنواجذ۔و إیّاکم ومحدثات الأمور؛ فإن کل بدعۃ ضلالۃ۔))
’’ تم پر میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے ۔ اس کے ساتھ چمٹے رہو ‘ اور اسے اپنے کنچلی کے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔خبردار! اپنے آپ کو نئے کاموں سے بچاکر رکھنا ؛ اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [1]
بلا شک و شبہ خلفائے راشدین اس مہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین تھے؛ بنابرایں ہدایت کی وجہ سے ان سے گمراہی کی نفی کی گئی ہے اور رشد وکامیابی کی وجہ سے کجی اوربے راہ روی کی نفی کی گئی ہے۔
یہ علم و عمل کا کمال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گمراہی علم نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور کجی اتباع نفس [خواہشات نفس کی پیروی] کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم نمازوں میں یوں کہیں :
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم(۵) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ (۶) غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ
|