Maktaba Wahhabi

318 - 764
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخبار و احوال کی معرفت؛ آپ کے اقوال و افعال؛ آپ کی بیان کردہ توحید؛ امر و نہی ؛وعد و وعید اوراعمال و اقوام اور زمان و مکان کے فضائل و مثالب [نقص و عیب]کا حال بھی ایسے ہی ہے۔ان کا سب سے زیادہ علم ان لوگوں کو ہے جنہیں آپ کی احادیث کا علم ہے ؛ اور انہوں نے اس علم کے حاصل کرنے میں ہر طرح کی جدو جہد ؛ محنت ومشقت سے کام لیا ہے۔ اور اس علم کے نقل کرنے والوں کے احوال کی معرفت حاصل کی ہے۔ او رپھر کئی اعتبار و وجوہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کو جانا۔اور ان سب روایات کو جمع کیا۔ اور سچے کی سچائی ؛ غلط کار کی غلطی اور جھوٹے کے جھوٹ کی معرفت حاصل کی۔ اس علم کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کیے جنہوں نے اس امت میں ان علوم کی حفاظت کی جن کی وجہ سے یہ دین محفوظ رہا۔ اور دوسرے لوگ اس علم میں ان کے تابع ہیں : یا تو ان سے استدلال کرنے والے ہیں ؛ یا پھر ان کے مقلد ہیں ۔ جیسا کہ احکام میں اجتہاد کا معاملہ ہے؛ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو پیدا کیا؛ حتی کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ان کے دین کو محفوظ کیا۔ تو ان کے علاوہ جتنے لوگ ہیں ؛ وہ ان کے تابع ہیں ۔ یا تو ان سے استدلال کرنے والے ہیں ؛ یا پھر ان کے مقلد ہیں ۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخواص اصحاب کرام رضی اللہ عنہم ان لوگوں کی نسبت احوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت زیادہ رکھتے تھے جنہیں اختصاص میں ان سے کم مرتبہ ملا تھا۔ خواص کی مثال: جیسا کہ حضرت أبو بکر وعمر،عثمان، علی، طلحۃ، الزبیر،عبد الرحمن بن عوف، سعد، أبي بن کعب، معاذ بن جبل، ابن مسعود، بلال، وعمار بن یاسر، ابو ذر الغفاری، وسلمان، وأبو الدرداء، وابو یوب الأنصاری،عبادۃ بن الصامت، وحذیفہ، وأبو طلحہ،اور ان کے امثال مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین؛- رضی اللہ عنہم - جنہیں ان لوگوں کی نسبت زیادہ اختصاص حاصل تھا جو کہ ان کے ہم پلہ و ہم مثل نہیں ہیں ۔لیکن بعض صحابہ کرام دوسروں کی نسبت زیادہ یادداشت اور سمجھ و فقہ رکھتے ہیں ۔اگرچہ ان میں سے کسی دوسرے کو لمبی صحبت کی سعادت ملی ہو۔ اور بعض سے ان کی لمبی عمر کی وجہ سے لوگوں نے زیادہ علم حاصل کیا ہوتا ہے؛ بھلے کوئی دوسرا اس سے بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ؛ حضرت ابن عمر؛ حضرت ابن عباس؛ حضرت عائشہ؛ حضرت جابر؛ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہم سے ان لوگوں کی نسبت زیادہ علم حدیث حاصل کیا گیاہے جو ان سے زیادہ افضل تھے۔ جیسے حضرت طلحہ؛ حضرت زبیر؛اور ان کے امثال رضی اللہ عنہم ۔ جب کہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کو کلیات دین کی تبلیغ ؛ دین کے اصولوں کی نشرو اشاعت اور لوگوں کے ان سے علم دین کے حصول میں وہ مقام حاصل ہے جو ان کے علاوہ کسی دوسرے کے نصیب میں نہیں ۔ اگرچہ بعض صغار صحابہ سے احادیث ِ مفردہ اتنی کثرت سے روایت ہیں جو کہ خلفاء سے بھی روایت نہیں کی گئیں ۔ پس خلفائے راشدین کو عموم تبلیغ اور دین کو قوت دینے میں وہ مقام حاصل ہے جس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ۔پھر جب یہ لوگ اس دعوت و تبلیغ کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے علاوہ دوسرے بھی اس بابرکت کام میں ان کے شریک ہوگئے۔ پس اس طرح اس کام کوتراتر کادرجہ حاصل ہوگیا؛ جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا مصاحف کی
Flag Counter