Maktaba Wahhabi

314 - 764
نیز فرمایا : ﴿ وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ ﴾ [الأعراف ۱۴۲] ’’اور ہم نے مزید دس راتوں سے اسے پورا کردیا۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ﴾ [البقرۃ ۱۹۶] ’’اور وہ ہیں گنتی کے پورے دس ۔‘‘ جب کہ نو کے عدد کو بطور مذمت کے ذکر کیا ہے ؛ فرمان الٰہی ہے : ﴿وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ [النمل ۴۸] ’’اور شہر میں نو گروہ تھے جو کہ فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے ۔‘‘ تو کیا کبھی بھی ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے نو کے عدد کو زبان پر لانے کو ناپسند کیا ہے ۔ جب کہ شیعہ کا یہ حال ہے کہ وہ دس کے بجائے نو کے لفظ کو ترجیح کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے ہی شیعہ کا ان اسماء[ناموں ] کوناپسند کرنا جو ان کے ناپسندیدہ لوگوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں ۔جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ موجود تھے جن کے نام اسلام دشمنوں کے ناموں پر تھے۔ جیسا کہ ولید ؛ جسے قرآن نے وحید کے لقب سے ذکر کیاہے ؛اس کا بیٹا بہترین مسلمانوں میں سے تھا؛ اس کا نام بھی ولید رضی اللہ عنہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قنوت نازلہ پڑھ کر اس کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے : ’’ اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات عطاء فرما۔‘‘ [متفق علیہ ] جیساکہ ابی بن خلف جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیا تھا ۔ جبکہ مسلمانوں میں اس نام کے کئی افراد موجود تھے جیسے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔اور جیسا کہ عمرو بن عبد ود العامری؛اور صحابہ میں بھی اس نام کے لوگ تھے جیسے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کا نام بھی اس وجہ سے تبدیل نہیں کیا کہ اس نام کا کوئی کافر بھی موجود ہے۔ ٭ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ جن لوگوں سے شیعہ نفرت رکھتے ہیں ‘وہ کافر ہیں ؛ پھر بھی ان کا ان ناموں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جہالت کی انتہاء ہے ؛کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان صحابہ کو ان ہی ناموں سے پکارا کرتے تھے۔ ٭ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ اہل علم و دین میں سے جن لوگوں نے بھی جمہورکا تجربہ کیا ہے ؛ وہ جانتے ہیں کہ جمہور کبھی بھی جھوٹ پر راضی نہیں ہوتے ؛ بھلے وہ ان کی اغراض کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔ خلفاء ثلاثہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں کتنی ہی روایات ایسی ہیں جن کی اسناد شیعہ کی روایات سے زیادہ بہتر ہیں ۔ مثال کے طور پر ابو نعیم اور ثعلبی ؛ ابوبکر النقاش اور أہوازی اور ابن عساکر کی روایات؛ او ران جیسے دوسرے لوگوں کی مرویات ۔مگر علماء حدیث ان میں سے کسی ایک روایت کو بھی ایسے ہی قبول نہیں کرلیتے ۔ بلکہ ان کے ہاں جب کسی روایت کا راوی مجہول ہوتا ہے ؛ تواس کی روایت میں توقف اختیار کرتے ہیں ۔جب کہ رافضی گروہ کی حالت یہ ہے
Flag Counter