Maktaba Wahhabi

307 - 764
کی سب سے پہلے مخالفت کرنے والے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت ہیں ۔ان کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ ایسے کریں جیسے خوارج نے کیا تھاکہ اگرخود ان کے قتال سے عاجز آگئے ہیں تو دار الاسلام کو چھوڑ کرکہیں پڑاؤ ڈال دیتے۔ اور اہل دار اسلام پر کفر اور ارتداد کا حکم لگادیتے۔ جیسا کہ بہت سارے رافضی شیوخ کرتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر واجب ہوتا تھا کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ جب کفار ایمان نہیں لارہے تو پھر اپنے اور اپنے شیعہ کے لیے دار ارتداد و کفر کو چھوڑ کرایک اور دار قائم کرلیتے۔ اور ان سے ایسے جدا ہوجاتے جیسے مسلمان مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں سے جدا ہوگئے تھے۔ یہ اللہ کے نبی[محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] ہیں ۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں انتہائی کمزور تھے۔ مگر اس کے باوجود کفار سے علیحدہ رہتے تھے۔ اور کفارسے ایسے جدا اور ممتاز رہتے تھے کہ مسلمان اورکافر کی پہچان ہوسکتی تھی۔ ایسے ہی ان لوگوں میں سے کتنے ہی ایسے تھے جنہوں نے کمزور ہونے کے باوجود حبشہ کی طرف ہجرت کی۔اوروہ وہاں پر نصاری سے جدا رہتے تھے۔ اور عیسائیوں کے سامنے اپنے دین کااظہار کیا کرتے تھے۔ یہ دار اسلام ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں سے بھرا ہوا ہے ؛ مگر اس کے باوجود یہ لوگ مسلمانوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے دین و مذہب کا کھل کر اظہار کرتے ہیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شک کرنے والا ہر انسان حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نزدیک کافر ہوتا ؛ اور ان کے نزدیک صرف وہی شخص مؤمن ہوتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنے والا ہوتا ؛ اورجوشخص یہ عقیدہ نہ رکھتا وہ حضرت علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نزدیک مرتد ہوتا ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے دین کو بدل ڈالا؛ اورکافروں اور مؤمنوں کے درمیان کوئی فرق نہ کیا اور نہ ہی مرتدین اور مسلمانوں کے مابین کوئی تمیز کی ۔ مان لیجیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے قتال کرنے سے عاجز آگئے تھے تو انہیں اپنے حلقہ اطاعت میں داخل نہ کر سکتے تھے ؛ تو آپ کم از کم ان سے جداگانہ حیثیت ثابت کرنے سے تو عاجز نہیں تھے۔ آپ خوارج سے بڑھ کر عاجز تو نہیں تھے جو کہ آپ کے لشکر میں بہت ہی کم تعداد میں تھے؛ مگر خوارج نے جماعت مسلمین کے دار کو چھوڑ کر اپنے لیے علیحدہ دار بنا لیا تھا؛ وہ ان سے جدا ہوگئے اوران پر کفر کا حکم لگایا۔ وہ صرف اپنے ساتھیوں کو ہی مؤمن قراردیتے تھے۔ پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے کیونکر یہ حلال ہوتا کہ وہ مسلمانوں کی زمام کار ایسے مرتد کے سپرد کردیتے جو یہود و نصاری سے بھی برا ہو؟ جیسا کہ ان لوگوں کاحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعوی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان پر رکھنے والا کوئی انسان ایسی حرکت کرسکتا ہے؟حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ آپ کوفہ میں ہی رہتے ؛ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آ پ سے جنگ نہ کرتے ۔اس لیے کہ انہوں نے آپ سے اپنی مرادطلب کی تھی۔اگرآپ اپنے باپ کی جگہ پر رہتے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ سے جنگ ہر گز نہ کرتے۔[ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا حضرت حسن کے نزدیک کافر ہوتے تو آپ بخوشی ان کے حق میں سلطنت و حکومت سے دست بردار نہ ہوتے۔
Flag Counter