Maktaba Wahhabi

306 - 764
سادساً:....ظاہر ہے کہ ان نصوص قطعیہ کو شیعہ کی جھوٹی روایات کی بنا پر کیوں کر ترک کیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ شیعہ کی بعض مرویات سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح وارد ہوتی ہے اوران سے وجوباً معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اﷲ و رسول کی تکذیب کرنے والے تھے۔ ان روایات کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کا مجروح ہونا بھی لازم آتا ہے۔ [یعنی]جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دعوائے خلافت کی مخالفت کی تھی؛ وہ اس حدیث کی روشنی میں کافر ٹھہرے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان نصوص کے موجب عمل نہیں کیا۔ مثلاً نواصب؛[ جنہیں شیعہ کافر قرار دیتے ہیں جبکہ] حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو مسلم اور اہل ایمان تصور کرتے تھے۔ خوارج جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ؛ وہ آپ کے بدترین دشمن تھے، مگر اس کے باوجود آپ نے ان پر کافر ہونے کا حکم نہیں لگایا۔ بلکہ آپ نے ان کو لونڈی غلام بنانے سے روکا اور ان کے مالوں کو حرام قرار دیا تھا۔بلکہ آپ ان سے قتال کرنے سے پہلے ان سے یوں فرمایا کرتے تھے: ’’ تمہارا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم تمہیں اپنی مساجد میں آنے سے نہ روکیں ۔اور ہمارے مال فئے میں تمہارا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اورجب ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوزخمی کردیا تو انھوں نے فرمایا: ’’ اگر میں زندہ رہا تو جیسے چاہوں گا اپنے خون کا فیصلہ کروں گا۔‘‘آپ نے ابن ملجم کو اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کرنے کی وجہ سے فوری مرتد قراردے کر قتل کا حکم نہیں دیا تھا۔[ اگر وہ مرتد ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے فی الفور قتل کرنے کا حکم صادر کرتے]۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے اہل جمل کا تعاقب کرنے سے منع کیا تھا۔ نیز اس بات سے بھی روکا تھا کہ ان کے زخمیوں کو قتل کیا جائے یا ان کا مال لوٹا جائے؛ یا ان کے بچوں کو جنگی قیدی بنایاجائے۔ اگر شیعہ کی ذکر کردہ روایات؛جن کی روشنی میں یہ لوگ کافر تھے؛ ان کو ترک کرنے سے اگرکوئی شخص کافر ہو جاتا ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے ان احادیث کو جھٹلایا اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا؛ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی کافر ہوئے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کا جنازہ پڑھا تھا جنھوں نے جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا ۔ آپ فرمایا کرتے تھے:’’ ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تھی تلوار نے ان کو پاک کردیا۔‘‘ اگر یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک کافر ہوتے تو آپ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھتے؛ اورنہ ہی انہیں اپنے بھائی قرار دیتے اور نہ ہی ان کے قتل کیے جانے کو ان کے گناہوں کی طہارت قراردیتے ۔ بالجملہ ہم اضطراری طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے یہ بات جانتے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو کافر قرار نہیں دیتے تھے جو آپ کے خلاف جنگ آزما ہوئے۔بلکہ نہ ہی جمہور مسلمین ‘نہ ہی خلفاء ثلاثہ اور نہ ہی حسن و حسین رضی اللہ عنہم نے ان میں سے کسی ایک کو کافر قرار دیا۔ اور نہ ہی علی بن حسین نے اور نہ ہی ابو جعفرنے ایسا کیا۔ اگر یہ لوگ کافر تھے تو ان نصوص
Flag Counter