Maktaba Wahhabi

298 - 764
لیکن الحمد للہ ۔کہ اہل بیت رافضی مذہب کی کسی ایک بات پر بھی کبھی متفق نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ ان کے مذہب اور ان کی من گھڑت شریعت سے بالکل بری ہیں ۔ رافضی کا کہنا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے اہل بیت کشتی نوح کی طرح ہیں کہ جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا وہ ڈوب گیا۔‘‘ یہ روایت صحیح نہیں اورنہ ہی حسن درجہ کی سندکے ساتھ کسی قابل اعتماد کتاب میں موجود ہے۔[1] اگرچہ اسے بعض رات کے لکڑہاروں نے روایت بھی کیا ہو جو کہ من گھڑت اور ضعیف روایات کی تمیز کا کوئی اہتمام نہیں کرتے ‘ تو ایسے لوگوں سے روایت کا نقل کرنا الٹا ان کے مذہب کے بودے پن کی نشانی ہے۔ ٭ دوسرا جواب[الزامی]: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے بارے میں فرمایا: ’’ میرے اہل بیت اورکتاب اللہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ میرے پاس حوض پر آجائیں ۔ آپ صادق و مصدوق ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد’’لَنْ یَتَفَرَّقَا‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اہل بیت کا اجماع حجت ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ قاضی نے المعتمد میں ذکر کیا ہے کہ عِتْرت سے سب بنو ہاشم؛ مثلاً اولاد علی؛ واولاد عباس و اولاد حارث بن عبد المطلب اور تمام بنی ابو طالب مراد ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف اکیلے ہی عترت نہیں ہیں ۔اوراہل بیت کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت کے علماء جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما [اہل بیت میں سے فقیہ تر تھے اور بعض مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا کرتے تھے]اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے فتاویٰ کو کسی پر واجب نہیں ٹھہرایا کرتے تھے ۔اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ہر فتوی کو لوگوں پر مسلط کیا کرتے تھے۔اور نہ ہی ائمہ سلف -بنی ہاشم اور دوسرے اہل بیت - میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہر قول میں ان کی اطاعت کو واجب کہتے ہوں ۔ ٭ تیسرا جواب : یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اہل بیت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت یا امامت و خلافت پر اجماع منعقد نہیں کیا تھا ۔ بلکہ ائمہ اہل بیت جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو امامت و افضلیت
Flag Counter