Maktaba Wahhabi

293 - 764
کے پاؤں سفید نہیں ہوں گے۔اس لیے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بروز قیامت ان کی قیادت بھی نہیں کریں گے۔ اورنہ ہی انہیں سفید پاؤں والوں کے ساتھ چلایا جائے گا۔اس لیے کہ[حدیث میں مذکور]حجلہ [سفیدنشان] پاؤں کی پشت میں ہوتا ہے ۔پاؤں میں یہ نشان ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ہاتھ میں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ایڑیوں اور پاؤں کی اندرونی جانبوں کو آگ کی وجہ سے بڑی تکلیف کا سامنا ہو گا۔‘‘[1] [حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا جو حصہ خشک رہے وہ آگ میں جلے گا]۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ محجّل گھوڑا وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ پاؤں پر سفیدی کا نشان ہو ورنہ اسے محجل نہیں کہتے۔ ثابت ہوا کہ محجل پاؤں اور ہاتھ کی سفیدی والے کو کہتے ہیں ۔ بنابریں جو شخص اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک نہیں دھوتا۔ بروز قیامت اس کے پاؤں سفید نہیں ہوں گے۔پس سفید نشان والوں کے قائد بھی ان لوگوں سے برأت کا اظہار کریں گے؛ بھلے یہ کوئی بھی لوگ ہوں ۔ نیز جس حقیقت واقعی سے اس روایت کاجھوٹ واضح ہوتا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا امام ؛سردار اور قائد قرار دینا ہے۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلانیہ اورواضح طور پرحضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیا کرتے تھے اس کی حد یہ ہے کہ خاص و عام [اہل ایمان ہی نہیں ]بلکہ مشرکین بھی اس سے آگاہ تھے۔ احدکے موقع پر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا کہ: کیا تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں ؟ کیا تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ؟ کیا تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں ؟ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اس کا جواب دینے سے منع کردیا تھا۔ پھر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا کہ:’’ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟(یعنی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ )۔ اور پھر تین مرتبہ کہا کہ:کیا تم میں عمر بن الخطاب ہیں ؟کیا تم میں عمر بن الخطاب ہیں ؟کیا تم میں عمر بن الخطاب ہیں ؟ اور پھر اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ :’’یہ تو سب مارے گئے۔‘‘ جس پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو نہ روک سکے اور کہا : ’’ اے اللہ کے دشمن اللہ کی قسم! جن لوگوں کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں ۔ اور جس بات سے تم رنجیدہ ہو وہ برقرار ہے۔‘‘[2]
Flag Counter