Maktaba Wahhabi

288 - 764
آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں خالی چھوڑ رہے ہیں جب کہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کا خون ٹپک رہا ہے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں کفر سے نئے مسلمان ہونے والوں کو ان کی تألیف قلبی کے لیے دیتا ہوں ۔ کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ لوگ مال لے کر واپس جائیں اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر جاؤ۔ اللہ کی قسم ! جو چیز لے کر تم واپس جاؤ گے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لوگ لے کر واپس اپنے گھروں کو جائیں گے۔‘‘ وہ سبھی کہنے لگے: ’’کیوں نہیں یا رسول اللہ! ہم اس پر راضی ہیں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم لوگ میرے بعد بہت زیادہ تونگری دیکھوگے ؛ تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ اللہ اس کے رسول سے حوض پر ملاقات کرو ۔‘‘انصار نے عرض کیا:’’تو پھر ہم صبر کریں گے۔‘‘ [صحیح مسلم:۲۴۲۹] نیز آیت کریمہ : ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی oاَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَ مَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیoاِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی oوَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ (اللیل:۱۷۔۲۱) ’’اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے۔جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔وہ توصرف اپنے رب عالی مقام کی رضا جوئی کے لیے(یہ کرتا ہے)۔ یقیناً وہ(اللہ بھی) عنقریب رضامند ہو جائے گا۔‘‘ اس میں مستثنیٰ منقطع ہے۔اس کا معنی یہ ہوا کہ : یہ ’’اتقی ‘‘ عطیات دینے میں صرف ان لوگوں پر انحصار نہیں کرتا جن کا ان پر کوئی احسان ہے ؛ اس لیے کہ لوگوں کا آپس میں ایسا کرناتوعدلاً واجب ہے جو کہ خرید و فروخت اور اجرت کی منزلت پر ہے۔ہر انسان کے ساتھ ایسا کرناہر ایک پر واجب ہے۔ اور اگر کسی انسان کا کوئی قابل معاوضہ [بدلہ ]احسان نہ ہو تو پھر اس قسم کے معادلہ [برابری کے سلوک] کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس اس صورت میں عطاء خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی ۔ بخلاف اس شخص کے جس پر کسی کا کوئی احسان ہو‘ تو وہ بدلہ چکانے کا محتاج ہوتا ہے۔اسے ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کے بدلہ میں بھلائی کا سلوک کرے۔ لیکن جس شخص پر کسی کا کوئی ایسا احسان نہیں ہے جس کا اسے بدلہ دیا جائے ‘تو جب یہ شخص اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو یہ صرف اپنے تزکیہ نفس کے لیے ہوگا۔ اس لیے کہ یہ انسان ہمیشہ لوگوں کو ان کے معاملات میں پورا پورا بدلہ دیتا ہے؛ ان کی مدد کرتا اورانہیں جزاء سے نوازتا ہے۔پس جب اللہ تعالیٰ اسے مال عطا کرتا ہے تو وہ اسے تزکیہ نفس کے لیے خرچ کرتا ہے ‘ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہوتاجس کا بدلہ دے رہا ہو۔ نیز اس آیت میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ : یہ فضیلت اس انسان کی ہے جو معاوضات میں سے واجبات کی ادائیگی کے بعد خرچ کررہا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter