مسند احمد اور سنن ترمذی اور سنن ابو داؤد میں ہے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت میرے پاس مال موجود تھا۔ میں نے اپنے جی میں کہا: آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جاؤں گا۔ پس میں اپنے گھر کا آدھا مال لیکر حاضر ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا ؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی مال اپنے گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں ۔اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لیکر حاضر ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو آپ نے عرض کیا: اپنے گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘ پس میں نے کہا: میں کبھی بھی آپ پر سبقت حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘
ہاں ! ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سارا مال پیش کردیا ‘ مگر اس کے باوجود آپ کسی سے لے کر نہیں کھاتے تھے۔ نہ ہی صدقہ کا مال اور نہ ہی صلہ رحمی کا؛ نہ ہی نذر و نیاز [نہ ہی نذرانہ ]۔ بلکہ آپ تجارت کیا کرتے تھے۔ اور اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے آپ کو حکمران بنادیا توآپ تجارت چھوڑ کر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔تو آپ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مال؛ اللہ اور اس کے رسول کے حصہ [خمس] سے کھایا کرتے تھے ؛ کسی مخلوق کے مال سے کبھی کچھ نہیں کھایا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مال غنیمت میں سے کوئی چیز بطور خاص نہیں دیا کرتے تھے ؛ بلکہ جیسے عام مسلمان مجاہد کو غزوات میں حصہ ملتا ایسے ہی آپ کو بھی ملا کرتا تھا۔بلکہ آپ سے مال لے کر اسے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال تو کیا مگرکبھی بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز بطور خاص دی ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ نے عطیہ دیا؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مال فئے میں سے دیا‘ اورایسے ہی نئے مسلمانوں اور مؤلفۃ القلوب کو اور آزاد کردہ لوگوں کو دیا کرتے تھے۔ اہل نجد کو بھی دیا ۔ایسا بھی ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین کو کچھ بھی نہیں دیتے تھے۔ جیسا کہ غزوہ حنین اور بعض دوسرے مواقع پر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں کچھ لوگوں کو دیتا اور کچھ لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ جس انسان کو میں کچھ نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان لوگوں کی نسبت زیادہ محبوب ہے جنہیں میں کچھ دیتا ہوں ۔ اور میں ان لوگوں کودیتا ہوں جن کے دلوں میں کچھ ملال یا کمزوری ہے۔ اور جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے تونگری اور خیر رکھی ہے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتاہوں ۔‘‘
جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ انصار عطیات کے بارے میں کچھ چہ می گوئیاں کررہے ہیں ‘ تو آپ نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا؛ تو انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جولوگ صاحب الرائے انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا؛ ہاں کچھ نوجوان چھوکروں سے ایسی باتیں ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا: اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو معاف فرمائے ‘
|