تواس کے جواب میں کہا جائے گا: ’’ تصور کیجیے ! معاملہ بالکل ایسے ہی ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ خرچ بھی کرتے تو آپ اسی جگہ پر خرچ کرتے جہاں پر خرچ کرنے کا حکم انہیں بارگاہ رسالت سے ملتا۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس نعمت کی جزاء دینے کی گنجائش موجود تھی۔ تو آپ کا خرچ کرنا مجازات سے ایسے خالی نہیں ہوسکتا جیسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انفاق فی سبیل اللہ مجازات سے خالی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسروں سے بڑھ کر متقی ہیں ‘ مگر اس مذکورہ وصف میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ زیادہ کامل تھے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں یہ بات واضح ہے کہ مخلوق میں سے کسی ایک کے پاس بھی آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں ۔ یہ وصف اسی انسان کا ہوسکتا ہے جو لوگوں کو ان کے احسانات پر بدلہ دیتا ہو‘ اور مخلوق میں سے کسی ایک کا کوئی احسان اس پر باقی نہ رہا ہو۔ یہ وصف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یوں پوری طرح سے منطبق ہوتا ہے کہ مہاجرین میں سے کوئی دوسرا انسان آپ کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ بیشک مہاجرین -حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ کرام - میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں تھا جو اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد لوگوں کے ساتھ اپنی جان و مال سے اس قدر احسان کرنے والا ہوجس قدر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ احسان کیا کرتے تھے۔آپ لوگوں میں مألوف و محبوب تھے ؛ لوگوں کی خیرخواہی میں ان کیساتھ مدد کیا کرتے۔جیسا کہ مکہ سے آپ کی ہجرت کے وقت اس علاقہ کے سردار ابن دغنہ نے کہا تھا: ’’اے ابوبکر! آپ جیسے لوگوں کو نہ ہی نکالا جاسکتا ہے‘ اور نہ ہی وہ خود نکل سکتے ہیں ۔بیشک آپ کمزوروں کی مدد کرتے ہیں ؛ مہمان نوازی کرتے ہیں ؛ ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں اور حق کے کاموں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے حضرت عروۃ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:’’ تو لات کی شرم گاہ چوس! کیا ہم بھاگ جائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں ہی اکیلا چھوڑ دیں گے ؟ تو اس نے جواب میں کہا: اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا میں بدلہ نہیں دے سکا ؛ تو میں ضرور تمہیں اس کا جواب دیتا ۔‘‘
اسلام سے قبل اور اس کے بعد کسی ایک بھی ایسے انسان کے بارے میں بھی علم نہیں ہوسکا جس کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کوئی احسان ہو۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے آپ ہی اس بات کے حق دار تھے کہ ان الفاظ میں آپ کی مدح سرائی کی جائے:
﴿وَ مَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی﴾
’’ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔‘‘
آپ اس آیت کے مقصود میں داخل ہونے میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیاوی احسانات ہیں ۔ مسند أحمد بن حنبل میں ہے : ’’ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تو آپ کسی کو نہیں کہتے تھے کہ یہ اٹھاکر مجھے دیدو ۔اور آپ فرمایا کرتے تھے :
’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ میں کبھی بھی لوگوں سے کسی بھی چیز کاسوال نہ کروں ۔‘‘
|