Maktaba Wahhabi

282 - 764
یوں کیوں نہ فرمایا کہ :’’ اے اﷲ! علی رضی اللہ عنہ کو حاضر کردے؛ بیشک وہ تیرے ہاں مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ اگر آپ ایسے صاف اور صریح الفاظ میں علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر دعا کردیتے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک بھی باطل امید پر نہ رہتے ‘اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آمد پر دروازہ بند کردیتے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات نہیں جانتے تھے ؛ تو رافضیوں کایہ دعوی باطل ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا۔ نیز یہ کہ اس روایت کے الفاظ ہیں : (( اَحَبَّ خَلْقِکَ اِلَیْکَ وَاِلَيَّ۔)) ’’ جو تجھے اور مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘ حیرانی کی بات ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سب مخلوقات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز تر تھے تو آپ کو یہ بات کیوں کر معلوم نہ تھی؟ ٭ چھٹا جواب : کتب صحاح ستہ میں جو احادیث صحیح اور ثابت ہیں اورجن کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے ؛اور انہیں علمائے کرام رحمہم اللہ میں قبول عام حاصل ہے؛ وہ تمام احادیث اس روایت کے خلاف ہیں ۔ تو پھر ان کا مقابلہ اس موضوع اور جھوٹی روایات سے کیوں کر کیا جاسکتا ہے جنہیں کسی ایک نے بھی صحیح نہیں کہا۔ اس روایت کے ناقابل اعتماد ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری و مسلم اور دوسری کتب میں وارد فضائل صحابہ کرام کی روایات ہیں ۔بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اگر روئے زمین پر رہنے والوں میں سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘[1] یہ حدیث مشہور ہی نہیں بلکہ اہل علم کے ہاں متواترہے۔صحاح ستہ میں مختلف طرق سے مروی ہے’ اس حدیث کے راویوں میں حضرت ابن مسعود[2] ،ابن عباس [3]،ابو سعید[4] او ر ابن زبیر رضی اللہ عنہم [5] جیسے جلیل القدر صحابہ شامل ہیں ۔ یہ حدیث اس باب میں ایک صریح ثبوت ہے اہل ارض میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر محبوب کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اس لیے کہ ’’خلۃ[یاخلیل]‘‘ کا لفظ محبت کے کمال [ومعراج ] کے لیے بولا جاتاہے۔ اور یہ چیز صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ اہل دنیا میں سے کسی کے لیے ممکن ہوتی تو پھر اس کے مستحق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اس لیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں میں سب سے بڑھ کر محبوب تھے۔
Flag Counter