ائمہ متقدمین پر زبان درازی کرنا‘ ان کے محاسن بیان کرنے سے اعراض اور من گھڑت روایات کا بیان ان کے ہاں نہیں تھا۔ علماء حدیث نے انہیں اس چیز سے بچالیا تھا۔ اور انہوں نے وہ قواعد مقرر کردیئے تھے جس سے ان صحیح احادیث کی پہچان حاصل ہوسکتی تھی جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں ۔
بعض معمولی درجہ کے محدثین نے جو اس قسم کی روایات کو رد کیا ہے ‘جیسا کہ ابن عقدہ وغیرہ ؛ تو ان لوگوں کا مقصود یہ تھا کہ فضائل علی رضی اللہ عنہ میں جھوٹی احادیث تک کو جمع کرلیا جائے۔موضوع احادیث کے زور پر ان صحیح احادیث کو رد نہیں کیا جاسکتا جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں ‘ اور محدثین کے ہاں تواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ یہ احادیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کی احادیث سے زیادہ کثرت کے ساتھ ہیں اوردلالت میں واضح اور صریح ہیں ؛ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یہ نہیں فرمایاکہ: ’’انہوں نے فضائل علی رضی اللہ عنہ میں ان احادیث کو صحیح قراردیا ہے جنہیں دوسرے محدثین نے صحیح نہیں کہا۔ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ‘آپ سے اس قسم کی جھوٹ بات کا صدور ہر گز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ آپ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ان سے وہ روایات نقل کی گئی ہیں ‘ جو دوسرے محدثین سے نقل نہیں کی گئیں ۔‘‘ لیکن آپ کے اس کلام میں کچھ اشکالات ہیں جن کے بیان کا موقع محل یہ نہیں ہے۔
٭ تیسرا جواب : پرندے کا گوشت کھانے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب انسان حاضر ہو اوروہ اس میں سے کچھ کھائے۔ اس لیے شریعت ہر نیک اور بدکردار کو کھانا کھلانے کا حکم دیتی ہے۔ اس میں کھانے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ قربت کی کوئی بات نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت پوشیدہ ہے۔ تو پھر یہاں کون سی ایسی بڑی بات ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ یہ کام اللہ کا سب سے محبوب انسان ہی کرسکتا ہے ۔
٭ چوتھا جواب : اس حدیث میں رافضی مذہب کے مطابق تناقض پایا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مخلوق میں سب سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے بعد خلیفہ بھی بنایا ہے ۔ جب کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ حضرت علی اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوق میں سب سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔
٭ پانچواں جواب : یہاں پر دو ہی صورتیں ممکن ہیں :
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اﷲتعالیٰ کو سب مخلوقات کی نسبت عزیز تر ہیں ۔
۲۔ آپ کو اس بات کا علم نہ تھا۔
بصورت اوّل آپ کے لیے ممکن تھا کہ آپ کسی کو بھیج کرحضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلالیتے ؛پھر آپ نے انہیں کیوں نہیں بلا لیا؟ جیسے کہ آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو بوقت ضرورت بلالیا کرتے تھے۔ یا پھر آپ نے دعا میں
|