حالانکہ حاکم تشیع کی جانب منسوب ہے۔ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کوئی حدیث بیان کرو ‘ تو آپ نے فرمایا :’’ ایسی کوئی روایت میرے دل میں نہیں آتی ؛ یامیری زبان پر جاری نہیں ہوتی ۔ اس بات پر آپ کو مارا بھی گیا ؛ مگر آپ نے فضائل معاویہ رضی اللہ عنہ میں کوئی حدیث بیان نہ کی۔ حالانکہ آپ وہی امام حاکم ہیں جنہوں نے اپنی کتاب اربعین میں صرف ضعیف ہی نہیں بلکہ ائمہ حدیث کے نزدیک موضوع احادیث تک جمع کی ہیں ۔ جیسا کہ وعدہ توڑنے والے اور بیعت توڑنے والے کو قتل کرنے کی روایت ۔ مگران کی شیعیت اور ان جیسے دوسرے ائمہ حدیث جیسے امام نسائی ‘ ابن عبد البر اور ان کے امثال کی شیعیت اس درجہ تک نہیں پہنچتی کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیں ۔ علماء حدیث میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں پایا جاتا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات شیخین پر فضیلت دیتا ہو۔ بلکہ ان میں شیعیت کا انتہائی درجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے ہیں ۔ باقی ان
[1]
|