یمن میں تھے۔اور حج میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ لیکن حجۃ الوداع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نائب تو نہیں تھے کوئی دوسرے صحابی تھے۔
اگر نائب کا خلیفہ بننا ہی اصل ہے ؛ تو پھر جس انسان کو حجۃ الوداع کے آخری موقع پر نائب بنایا گیا تھا ؛ اسے خلیفہ بننا چاہیے۔وہ اپنے سے پہلے نائبین کی نسبت خلیفہ بننے کا زیادہ حق دارہے۔
خلاصہ کلام ! مدینہ پر نائب بنایا جانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ۔اور نہ ہی یہ افضلیت اور امامت کی دلیل ہے۔ بلکہ آپ کے علاوہ بھی کئی دوسرے لوگوں کو مدینہ میں نائب بنایا گیا۔لیکن رافضیوں کی جہالت کی حد یہ ہے کہ وہ فضائل جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کے مابین مشترک ہیں انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خصائص شمار کرتے ہیں ۔اگرچہ کوئی دوسرا ان فضائل میں آپ سے زیادہ کامل ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ انہوں نے نصوص اور وقائع میں کیا ہے۔
عیسائیوں نے بھی تو ایسے ہی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جو معجزے عطا کیے تھے؛ عیسائی انہیں صرف آپ کے ساتھ ہی خاص شمار کرنے لگے حالانکہ ان معجزات میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام بھی شریک ہیں ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات سے بڑھ کر تھے۔ اورپھر کوئی ایسا سبب بھی نہیں پایا جاتا جو ان معجزات کو ابراہیم وموسیٰ علیہماالسلام کو چھوڑ کر حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ بطور خاص واجب کرتا ہو۔ نہ ہی حلول اور نہ ہی اتحاد؛ ایسی کو ئی بھی چیز نہیں ۔بلکہ اگر یہ ساری چیزیں ممتنع ہیں ‘ تواس میں کوئی شک نہیں کہ تمام[انبیائے کرام] میں حلول اور اتحاد ممتنع ہے۔ اور اگر اس کی تفسیر کسی ممکن بات سے کی جائے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول اور اس پر ایمان ؛ اور پھر اس ایمان سے حاصل ہونے والے انوار اوردیگر امور۔تویہ مشترکہ قدر اور ممکن بات ہے۔
یہی حال شیعہ کاہے۔جو معاملات حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ کرام کے مابین مشترک او ران سب کو شامل ہیں ‘ انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص قراردیتے ہیں ۔اورپھر اسی پر عصمت ‘ امامت اور افضلیت کو مرتب کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ساری باتیں ممنوع و منتفی ہیں ۔
جس انسان کو سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ احوال صحابہ رضی اللہ عنہم معانی القرآن والحدیث کی معرفت ہو ؛ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ یہاں پر کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ کی امامت یا افضلیت کا وجوب ثابت ہوتا ہو۔ بلکہ یہ مشترکہ فضائل ہیں ۔ ان سے حاصل ہونے والا فائدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان و ولایت کا ثبوت ہے؛ اوران ناصبی لوگوں پر رد ہے جو آپ کو گالی دیتے ؛ فاسق کہتے ؛ اور کافر قرار دیتے ہیں ۔اورآپ کی شان میں ایسے ہی نازیبا کلمات کہتے ہیں جو رافضی خلفاء ثلاثہ کی شان میں کہتے ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے ثابت ہونے میں نواصب پرویسے ہی رد ہے جیسے خلفاء ثلاثہ کے فضائل کے اثبات میں روافض پر رد ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر روافض اورخوارج دونوں ہی تنقید کرتے ہیں ۔جب کہ شیعان عثمان آپ کے امام برحق ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر جرح کرتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی بدعت میں شیعان علی
|