Maktaba Wahhabi

256 - 764
اپنے کنبہ کا کوئی آدمی بھیجا کرتا تھا۔تو پھر ایسے نہیں ہوسکتا تھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے علاوہ کسی اور کی زبانی وہ اس عہد کی واپسی کو قبول کرلیتے۔ اس کی وضاحت اس چیز سے بھی ہوتی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال یہ ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی آپ کے بعد خلیفہ ہوں تو پھر یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ اس میں دو افراد سر گوشی کرلیتے۔اور نہ ہی پھر اس میں تاخیر کی جاتی حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ضرورت پیش آئی کہ وہ روتے ہوئے اور شکایت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ بلکہ پھر یہ ایسا حکم تھا جس کا بیان کرنا اورایسے کھلے الفاظ میں لوگوں تک پہنچانا واجب تھا جس سے مقصود حاصل ہوسکے۔ پھر رافضیوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ ان کے کلام میں تناقض پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث بغیر کسی شک و شبہ کے دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کلمات صرف غزوہ تبوک کے موقع پر کہے تھے۔ [اگر آپ نے اس سے پہلے بھی کبھی یہ ارشاد فرمایا ہوتا]اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوتاتو آپ کا دل بالکل مطمئن ہوتاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں او راس کے بعد بھی ہارون علیہ السلام کی منزلت پر ہیں ۔ تو پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے حاضر نہ ہوتے۔ اور آپ یہ بالکل نہ فرماتے کہ : آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنارہے ہیں ؟ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مطلق طور پرخلیفہ ہوتے تو کبھی بھی آپ پر کسی دوسرے کو نائب نہ بناتے ۔ ایسا بھی ہواکرتا تھا کہ آپ مدینہ میں موجود ہوتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے کو یہاں پرنائب مقرر کرتے ۔ جیسا کہ خیبر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ میں موجود تھے ؛ آپ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ اوریہاں پر امیر کوئی دوسرا صحابی تھا۔پھر آپ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے ؛ اور جب آپ تشریف لے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جھنڈا عطا کیا ؛ اس سے پہلے یہ جھنڈا کسی اور کے سپرد تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]۔ شیعہ مصنف کا یہ کہناکہ :’’چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور بہت تھوڑا وقت کی غائب ہونے کی صورت میں آپ کے خلیفہ تھے۔ لہٰذا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اور لمبی مدت کی غیبوبت میں بھی آپ کے قائم مقام ہونے کے زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘ جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موجودگی کے باوجود اپنی غیوبت میں کئی بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے کئی لوگوں کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ان کی نیابت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نیابت سے کہیں بڑھ کر اور عظیم الشان تھی۔ اور جن لوگوں پر انہیں نائب بنایا گیا وہ لوگ بھی ان سے افضل تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیا تھا۔ غزوہ تبوک کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو مدینہ میں نائب بنایا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنانے سے آپ خلافت کے ان لوگوں سے زیادہ حقدار نہیں بن جاتے جنہیں کئی دوسرے مواقع پر مدینہ طیبہ میں نائب بنایا گیا تھا۔مدینہ میں آپ کی سب سے بڑی اور آخر ی نیابت حجۃ الوداع کے موقع پر تھی۔اس وقت جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ
Flag Counter