Maktaba Wahhabi

241 - 764
یہ الفاظ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے منقول ہیں ۔ [مسلم ۲؍۸۹۰] نیز آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ’’ پس چاہیے کہ حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچائیں ۔ پس بہت سارے وہ لوگ جن تک پیغام پہنچایا جاتا ہے وہ سننے والے سے زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں ۔‘‘ [البخاری ۲؍۱۷۶] پس اس سے ظاہر ہوا کہ جس عصمت و حفاظت کی ضمانت آیت کریمہ میں ہے ‘ وہ اس دعوت و تبلیغ کے وقت موجود تھی۔ تو پھر ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے بعد نازل ہوئی ہو ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے اپنی تبلیغ کو مکمل کر دیا تھا۔ اور اس لیے بھی کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بشر کی جانب سے کسی طرح کا خوف و اندیشہ باقی نہیں رہا تھاجس کی وجہ سے آپ کو عصمت و حفاظت کی ضرورت ہو۔بلکہ فتح مکہ کے بعد اہل مکہ ؛ اہل مدینہ اور ان کے اردگرد کے لوگ اور[ باقی گروہ] مسلمان ہوکر آپ کی اطاعت میں داخل ہو چکے تھے ؛ ان میں کوئی ایک بھی کافر باقی نہیں بچا تھا۔ منافق انتہائی ذلت و رسوائی کا شکار اور اپنے نفاق کو چھپائے ہوئے تھے [انہیں کھل کر بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی]۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس میں جنگ و جدال اور مقابلہ کی ہمت باقی ہو۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کا کوئی خوف و اندیشہ باقی تھا۔ تو اس حالت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ : ﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ [المائدۃ ۶۷] ’’اے رسول! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔‘‘ اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ جو کچھ یوم غدیر خم کے موقع پر پیش آیا وہ ان امور میں سے نہیں تھا جن کی تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہو۔ جیساکہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تبلیغ کوپایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ اس لیے کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تھا ان کی ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس مدینہ نہیں پلٹی۔بلکہ اہل مکہ مکہ میں ہی رہ گئے؛ اہل طائف طائف واپس چلے گئے؛ اہل یمن یمن چلے گئے ؛ قریب کے دیہاتوں کے لوگ اپنے دیہاتوں کو واپس پلٹ گئے۔ آپ کے ساتھ وہی لوگ پلٹے جن کا تعلق مدینہ سے تھا یا پھر مدینہ کے قرب و جوار کے دیہاتوں کے رہنے والے تھے۔ اگر واقعی ایسے ہی ہوتا کہ جو کچھ غدیر خم کے موقع پر پیش آیا؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تبلیغ کے لیے مامور تھے ؛ جیسا کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا ؛ تو آپ اس انمول موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان امور کی تبلیغ بھی ضرور کرتے جیسے دوسرے امور کی تبلیغ کی تھی ۔ جب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر امامت یا اس سے متعلقہ امور کا سرے سے ذکر تک ہی نہیں کیا ؛ اور نہ ہی کسی ایک عالم نے کسی صحیح یا ضعیف سند سے حجۃ الوداع کے موقع
Flag Counter