Maktaba Wahhabi

234 - 764
ششم: ....[اس روایت کے الفاظ رکیک ہیں ، جن کی بنا پر دل اس کے باطل ہونے کی شہادت دیتا ہے]۔ اس میں مذکور ہے کہ آپ نے پوری جماعت[ چالیس آدمیوں ] کو یہ پیش کش کی تھی کہ جو کوئی میری اس دعوت کو قبول کرے گا اور اس کی دعوت و تبلیغ میں میری مدد کرے گا وہ میرابھائی اور میرا وزیر؛ میرا وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا۔‘‘[فرض کیجیے کہ اگر وہ سب آدمی اس دعوت کو قبول کرلیتے تو ان میں سے خلیفہ کون قرار پاتا؟] یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر محض ایک جھوٹ باندھا گیا ہے۔ایسی روایات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔اور نہ ہی صرف کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے اور مدد گار بننے سے کوئی خلیفہ بننے کا مستحق ہوجاتا ہے۔اس لیے کہ تمام وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے اس کلمہ کا اقرار کیا اور پھر اس کی اشاعت و تبلیغ کی خاطر قربانیاں دیں ۔ اور اس کی خاطر اپنی جانوں اور اموال کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنا گھر بار چھوڑا؛ اپنے سگے بھائیوں [اور رشتہ داروں ]سے دشمنی مول لی؛ اور جدائی و ہجر کے صدموں پر صبر کیا۔ غلبہ و عزت کے بعد اس کلمہ کی خاطر ذلت برداشت کی۔ مالدار ہونے کے باوجود تنگ دستی اور غربت کو برداشت کیا۔ وسعتوں کے بعد تنگی و پریشانی کو قبول کیا۔ اس بارے میں ان حضرات کرام کے واقعات بڑے ہی مشہور و معروف ہیں ۔ مگر اس کے باوجود ان میں سے کوئی آپ کا خلیفہ بننے کا دعویدار نہ ہوا۔ نیز یہ بھی ہے کہ فرض کیجیے : اگر وہ سب آدمی یا ان کی ایک بڑی اکثریت اس دعوت کو قبول کرلیتے تو ان میں سے خلیفہ کون قرار پاتا؟کیا بغیر کسی سبب[و موجب] کے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کیا جاسکتا تھا؟ یا پھر ان تمام کو ایک ہی وقت میں خلفاء مقرر کردیا جاتا؟ اس لیے کہ وصیت و خلافت اور بھائی چارگی اور مددتو ایک انتہائی آسان کام کے ساتھ مشروط کی گئی ہے یعنی شہادتین کا اقرار کرنا؛ اور اس کلمہ کی بنیاد پر نصرت و تعاون کرنا۔ کوئی بھی مؤمن ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ پر ؛اس کے رسول پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ؛مگراس کا اس کلمہ طیبہ میں وافر حصہ موجود ہوتا ہے ؛ اور جس کے لیے کلمہ طیبہ میں کوئی حصہ نہیں وہ منافق ہے۔ [جب معاملہ ایسے ہی ہے ] تو پھر اس قسم کے کلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیوں کر منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ ہفتم:....حضرت حمزۃ ؛ عبیدۃ بن حارث اور جعفر رضی اللہ عنہم نے بھی حضر ت علی رضی اللہ عنہ کی طرح اسلام قبول کیا تھا؛انہوں نے شہادتین کا اقرار کیا اور اس کلمہ طیبہ کی نشرو اشاعت میں معاون و مددگار بنے۔ان کا شمار بھی ان سابقین اولین میں ہوتا ہے جو شروع شروع میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے۔ بلکہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام لائے جب اہل ایمان کی تعداد چالیس کو بھی نہیں پہنچ پائی تھی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم بن ارقم میں بیٹھا کرتے تھے۔اور وہیں پر اپنے صحابہ کرام کے ساتھ جمع ہوتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے بنو عبد المطلب ایک ہی گھر میں جمع نہیں ہوا کرتے تھے ۔ اس لیے کہ ابو لہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ دشمنی کیا کرتا تھا۔ جب شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کا محاصرہ کیا گیا تو ابو لہب ان لوگوں کے ساتھ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوا تھا۔
Flag Counter