Maktaba Wahhabi

209 - 764
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد سچے لوگ ہیں ‘ اس کے لیے معصوم ہونے کی شرط نہیں لگائی۔ ٭ پانچویں بات : علاوہ ازیں آیت کے الفاظ ہیں :﴿وَ کُوْنُوا مَعَ الصَّادِقِیْنَ﴾ نہ کہ ’’کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِ‘‘ جمع کا صیغہ ہے؛ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہوتے تو واحد کا صیغہ چاہیے تھا۔ ٭ چھٹی بات : آیت﴿وَ کُوْنُوا مَعَ الصَّادِقِیْنَ﴾کا مطلب یہ ہے کہ راست باز لوگوں کی طرح راست گفتاری کے عادی بنو۔ جھوٹوں کی رفاقت اختیار نہ کرو۔ فرمان الٰہی ہے:﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ ( البقرۃ:۴۳)’’تم رکوع کرو رکوع کرنے والوں کیساتھ ۔‘‘ اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء ۶۹] ’’اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔‘‘ اور ایسے ہی ارشاد فرمایا ہے : ﴿فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [النساء ۱۴۶] ’’تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘ ا س سے مراد یاتو یہ ہوسکتی ہے کہ ہر چیز میں صادقین(سچے لوگوں ) کا ساتھ دو؛ اگرچہ اس کا تعلق صداقت سے نہ بھی ہو ۔ مگر یہ دوسرا معنی باطل ہے ۔ اس لیے کہ کسی انسان پر واجب نہیں ہے کہ وہ مباح چیزوں میں کسی کا ساتھ دے ۔جیسے کھانا پینا ؛لباس وغیرہ کے معاملات ۔ جب پہلی بات ہی صحیح ہے تو اس میں کسی متعین شخص کا کوئی حکم نہیں ہے۔بلکہ مقصود یہ ہے کہ سچ بولو اور جھوٹ سے بچ کر رہو۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم پر سچ بولنا واجب ہے۔ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اور انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سچا لکھ دیا جاتا ہے۔اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ؛بیشک جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔ اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے۔] ایسی آیات میں معیت سے یہ مراد نہیں لیا گیا کہ ہر بات میں ان کا انداز اختیار کرو یہاں تک کہ مباحات و ملبوسات میں بھی ان کی رفاقت کے دائرہ سے باہر نہ نکلو۔ جیسے کہا جاتا ہے: ﴿کُنْ مَعَ الْمؤمنین﴾’’ایمان والوں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ ﴿کُنْ مَعَ الْاَبْرَارِ﴾’’نیکوکاروں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ یعنی اس وصف میں ان کے شریک و سہیم بن جاؤ۔اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ پرہر چیز میں ان کی اتباع واجب ہوگئی ہے۔
Flag Counter