Maktaba Wahhabi

164 - 764
کی تھی۔حالانکہ ان کی تعداد بھی بعثت محمد ی کے وقت موجود کفار کی تعداد سے بہت کم تھی۔ان کی شان و شوکت بھی بہت کم تھی؛ اور ان کی نسبت یہ لوگ حق کے بھی زیادہ قریب تھے؟ جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھگڑاکرنے والے کفار تعداد میں بہت زیادہ اور حق سے بہت ہی دور تھے۔اس وقت میں اہل حجاز ‘ اہل شام ‘ اہل یمن ؛ اہل مصر اہل عراق ؛ اہل خراسان او راہل مغرب تمام کے تمام کفار تھے۔ ان میں مشرکین بھی تھے ‘ اہل کتاب بھی ؛ مجوسی بھی تھے اور صابی بھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت جزیرہ عرب پر اسلام غالب ہوچکا تھا۔ اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیے جانے کا واقعہ پیش آیا اس وقت تک اسلام مصر ؛ شام ؛ عراق ؛ خراسان اور مغرب تک غالب آچکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت دشمنان تعداد میں بہت کم اور قوت کے لحاظ سے بہت کمزور رہ گئے تھے ۔اور دشمنی بھی اس وقت کی نسبت بہت کم تھی جس وقت میں آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔ ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت یہ لوگ بالکل ہی کم اور کمزور ہوگئے تھے ۔ اور پہلے کی نسبت دشمنی میں بھی کمی آگئی تھی۔ وہ حق جس کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بر سر پیکار تھے ؛ وہ اس حق کا ایک جزء تھا جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قتال و جہادکر تے تھے۔ پس جو کوئی اس حق کو جھٹلائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں ‘اور اس پر قتال کرے ؛ یقیناً وہ انسان اس حق کو بھی جھٹلانے والا ہے جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس حالت میں حق کی نصرت اور باطل سے دفاع میں عاجز آگئے تھے ؛ توپھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو اس وقت آپ کا کیا حال ہوگا؟ اس وقت تو آپ بالکل ہی عاجز اور کمزور ہوں گے ۔کیونکہ اس وقت دشمنان بھی تعداد میں بہت زیادہ دشمنی میں سخت اور قوت و شوکت سے لیس تھے۔ روافض کے اس فعل کی نظیر نصاریٰ کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ ایک طرف حضرت عیسیٰ کو اِلٰہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں آپ ہر چیز کے رب ہیں اور ہر چیز پر قادر ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کے دشمنوں نے ان کی تذلیل کی ان کے سر پر کانٹے رکھے اور انھیں سولی پر چڑھایا۔ حضرت مسیح واویلا کرتے رہے، مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔نہ ہی وہ حضرت مسیح کے لیے قدرت قاہرہ کے ثابت کرنے میں کامیاب ہوسکے اورنہ ہی اس کمزوری کے ثابت کرنے میں ۔ اگر وہ کہیں کہ حضرت مسیح کو یہ تکلیف اﷲکی مرضی سے دی جار ہی تھی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ تو اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے۔اگر آپ کو قتل کرنااور پھانسی دینا یہ ایک طاعت و عبادت تھی تو پھر جو یہود یہ کام کررہے تھے وہ عبادت بجا لا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کررہے تھے ۔ بنا بریں وہ مدح و ستائش کے مستحق تھے نہ کہ مذمت کے ۔ یہ عظیم ترین کفر و جہالت ہے۔ عام شیعہ شیوخ اور فقراء بھی اسی قسم کے تضاد میں مبتلا ہیں ، ایک طرف وہ بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف ضعف و عجز کا مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
Flag Counter