Maktaba Wahhabi

163 - 764
اعانت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا اگر دیگر صحابہ موجود نہ ہوتے تو اسلام کا بول بالا نہ ہوتا۔ [[مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ چند صحابہ موجود تھے۔ تاہم دین کا بول بالا نہ ہو سکا، بلکہ دین کو غلبہ اسی وقت حاصل ہوا جب آپ نے مدینہ میں ہجرت فرمائی]] غور کیجیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امداد کے لیے لشکر جرار موجود تھا۔ تاہم آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے شام کا ملک چھین نہ سکے۔بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہی غلبہ حاصل رہا ۔بھلے یہ غلبہ قوت و قتال کے لحاظ سے ہو یا تدابیر اور چالوں کے لحاظ سے ۔ اس لیے کہ جنگ دھوکہ دہی کا نام ہے ۔ شاعر کہتا ہے: ’’ بہادروں کی بہادری سے پہلے رائے کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے کہ رائے کا موقعہ پہلے ہے اور شجاعت و بہادری دیکھانے کا موقعہ دوسرا ہے ۔‘‘ جب یہ دونوں چیزیں کسی انسان میں جمع ہوجاتی ہیں تو وہ بلندیوں کی انتہاء پر پہنچ جاتا ہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام کے غالب آنے کے بعد اور اپنے پیروکاروں کی اکثریت کی باوجود خود اپنی ذات کے کام نہ آسکے ؛ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت میں کیسے کام آسکتے تھے جب تمام دنیا والے آپ کے دشمن تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے غالب نہیں آئے کہ آپ کا لشکر آپ کی اتباع نہیں کرتا تھا ‘بلکہ وہ ہمیشہ آپس میں اختلاف کا شکار رہتے تھے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : جب آپ کے ساتھ مسلمان ہونے کے باوجود آپ کی اطاعت نہیں کررہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کافر لوگ آپ کی اطاعت کریں حالانکہ نہ ہی وہ آپ کو مانتے ہیں اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔ شیعہ کی جہالت اور ظلم کا اندازہ لگائیے کہ یہ دو متضاد باتوں کو جمع کردیتے ہیں ۔ ایک جانب توحضرت علی رضی اللہ عنہ کو قدرت و شجاعت کے اعتبار سے اکمل البشر قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے محتاج تھے۔ دین اسلام کی توسیع و اشاعت بھی روافض کے خیال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رہین منت تھی۔ایسا کفر کہتے ہیں کہ آپ کودین محمدی کے قائم کرنے میں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ تو دوسری جانب یہ کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہور اسلام کے بعد عجز و نیاز کا زندہ پیکر بن گئے تھے۔ اور آپ نے تقیہ کر رکھاتھا ۔یہ بات کس قدر عجوبہ روزگار ہے کہ جو شخص اسلام کی کمزوری اور قلت افراد کے زمانہ میں مشرکین بلکہ جن و انس سب پر غالب تھا؛جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوچکے تھے تو وہ ایک باغی گروہ کے مقابلہ میں کیوں کر عاجز آگئے اور اس کو زیر نہ کر سکے۔[ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تنہا مشرکین کو زیر نہیں کر سکتے تھے ؛ جب تک کہ آپ کے ساتھ دوسرے صحابہ کرام موجود نہ ہوتے ]۔ یہ بات یقینی طور پر سبھی لوگ جانتے ہیں کہ لوگ اسلام میں داخل ہونے کے بعد حق کے سب سے بڑے اتباع کار تھے ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے اللہ کا نازل کردہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ یہاں تک کہ کفار کو مغلوب کیا ؛ اور لوگ مسلمان ہوئے۔ تو پھر یہ ایک چھوٹے سے گروہ کو مغلوب کیوں نہ کرسکے جنہوں نے سرکشی اور بغاوت
Flag Counter