مؤمنین اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ۔ پس ان کے لیے کفایت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت مؤمنین سے ہو ‘اور مؤمنین کی قوت وکفایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ۔اس لیے کہ اس سے دور لازم آتا ہے ۔ بلکہ تمام تر قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ‘وہی اللہ وحدہ لاشریک ہی جوتمام تر قوتوں کا پیدا کرنے والا ہے وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت کا بھی پیدا کرنے والا ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ﴾[الأنفال:62-63]
’’وہی جس نے تجھے اپنی مدد اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔‘‘
بلاشک و شبہ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی اپنے رسول کی تائیددو چیزوں سے کرنے والے ہیں :
۱۔ وہ نصرت جس سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا۔
۲۔ اہل ایمان جوکہ آپ کی اطاعت گزاری میں داخل ہوگئے تھے۔
یہاں پر یہ کہا ہے کہ: حسبک اللہ۔ اور یہ نہیں فرمایا: نصر اللہ ِ ۔پس اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ مؤمنین بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں ۔پس یہاں پر جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا؛ اسے اس پر عطف کیا گیا ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔کیونکہ حقیقت میں یہ دونوں ہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ان میں سے کسی ایک چیز کے بھی پیدا کرنے میں کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ بلکہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلے ہی ان تمام چیزوں کے خالق و مالک ہیں ؛ اور وہ ان میں سے کسی ایک چیز کے لیے بھی کسی دوسرے کے محتاج نہیں ۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو پتہ چلا کہ رافضی جہالت پر جہالت مرتب کرتے چلے جاتے ہیں ۔ پھر ایسے اندھیروں کا شکار ہوگئے کہ یہ اندھیرے آپس میں اوپر نیچے ہورہے تھے ۔اس طرح وہ گمان کرنے لگے کہ :اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾اس کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور آپ کی اتباع کرنے والے مؤمنین آپ کے لیے کافی ہیں اور پھر آپ کے متبعین مؤمنین میں سے صرف ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی مؤمن مانتے ہیں ۔ان کی یہ جہالت پہلی جہالت سے بھی زیادہ بڑھ کر اور واضح ہے ۔ اس لیے کہ پہلی جہالت تو بعض لوگوں پر مشتبہ ہوسکتی ہے ؛ مگر یہ جہالت کسی بھی عاقل پر مخفی نہیں رہ سکتی۔
[[اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ ﴿مَنِ اتَّبَعَکَ﴾ فاعل ہے اور لفظ اﷲ پر معطوف ہے تو بھی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ نزول آیت کے وقت آپ کی پیروی کرنے والے بے شمار مومن موجود تھے۔ کوئی دانش مند آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جہاد کفار میں نبی کریم کے لیے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کافی تھے]]
اس لیے کہ بیشک تمام مخلوق میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کافی نہیں تھے۔ خدانخواستہ آپ کی
|