’’ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیئے نے اس پر حملہ کیا اور ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا چرواہے نے اس بکری کو بھیڑیئے سے چھڑا لیا تو بھیڑیئے نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا:’’ درندہ مسلط ہونے کے دن بکری کا کون محافظ ہوگا؟ جس دن کہ میرے سوا بکری چرانے والا کوئی نظر نہ آئے گا؟ لوگوں نے یہ واقعہ سن کر سبحان اللہ کہا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں اور ابوبکر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اس پر ایمان لائے ہیں ۔‘‘[صحیح بخاری:ج:۲:ح۸۸۰]
حالانکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس وقت وہاں پر موجود نہ تھے۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے مجھے جس قدر فائدہ پہنچا دوسرے کسی کے مال سے نہیں پہنچا۔‘‘[1]
یہ روایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خصائص میں انتہائی واضح اور صریح ہے ۔ اس میں کوئی بھی دوسرا آپ کا شریک نہیں ؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا ۔
بخاری و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ صحبت ورفاقت اور انفاق مال کے اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے سب سے بڑے محسن ہیں اور اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے ولا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والی سب کھڑکیاں بند کردی جائیں مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کھلی رہے۔‘‘[2]
سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ اے ابوبکر!آپ میری امت میں سے سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔‘‘[3]
ترمذی و ابوداؤد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ میرے پاس ان دنوں مال تھا۔ میں نے کہا آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ میں گھر میں گیا اور آدھا مال لا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ نبی کریم نے دریافت کیا:
’’ بال بچوں کے لیے کیا باقی چھوڑا؟ میں نے کہا :اس کے برابر۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر کا تمام اثاثہ لے آئے۔ آپ نے فرمایا:’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ ! گھر میں کیا باقی چھوڑا۔‘‘
عرض کیا: ’’ اللہ اور اس کے رسول کو باقی چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘
|