توخوارج و نواصب کہہ سکتے ہیں کہ ’’ قرآنی عمومات میں تو دیگر صحابہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہیں ؛ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [الفتح۱۸]
’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا ۔‘‘اور اس طرح کی دوسری آیات بھی ہیں ۔
مگرتم شیعہ اکابر صحابہ کو ان عمومات سے خارج کرتے ہو؛تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت کی بجائے آسان تر ہے کہ صرف ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے خارج کردیا جائے۔
اگر شیعہ کہے کہ ’’ احادیث نبویہ سے اور ان کی شان میں قرآن کے نزول سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ولی ہونا ثابت ہے ۔‘‘[1]
تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کی احادیث کثرت کے ساتھ اور واضح ہیں مگر شیعہ ان پرتنقید اوراعتراض کرتے ہیں ۔ دوسری جانب فضیلت علی رضی اللہ عنہ میں شیعہ جو روایات بیان کرتے ہیں ان کے ناقل وہی صحابہ ہیں جو شیعہ کے نزدیک مطعون ہیں ۔ اب دو ہی صورتیں ہیں :
۱۔ اگر صحابہ پر شیعہ کی جرح و قدح درست ہے تو فضیلت علی رضی اللہ عنہ میں ان کی روایات بھی معتبر نہیں ہیں ۔
۲۔ اگر فضیلت علی رضی اللہ عنہ کی روایات قابل اعتماد ہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم پر شیعہ کے مطاعن لغو ہیں ۔
اگر روافض کہیں کہ فضیلت علی رضی اللہ عنہ کی روایات شیعہ کی نقل اور تواتر کے مطابق معتبر ہیں ۔
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی بھی رافضی نہیں تھا۔اور معدودے چند کے سوا شیعہ کے نزدیک سب صحابہ رضی اللہ عنہم مطعون ہیں ۔[2]
|