کے طور پر جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ تک نے اپنی امامت کاکوئی دعویٰ نہیں کیا۔یہ کہا گیا ہے کہ : بیشک آپ دل سے امامت کے خواہاں تھے، مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں امام یا معصوم ہوں ۔ نہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد مجھے امام بنایا ہے اور میری اطاعت لوگوں پر واجب ٹھہرائی ہے۔ اور نہ اس قسم کے دیگر الفاظ ارشاد فرمائے۔
بخلاف ازیں ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جس شخص نے آپ کی نسبت سے اس قسم کے الفاظ نقل کیے ہیں وہ کاذب ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحیح معنی میں متقی تھے اور ایسے صریح کذب کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے جس کا کذب ہونا سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر عیاں ہو۔
شیعہ مصنف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’ ابن ابی قحافہ نے یہ لباس اوڑھا(منصب خلافت پر فائز ہوئے) حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ مجھے وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک چکی میں درمیانی سیخ کو حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : پہلی بات :اس قول کی سند کہاں ہے ؟جس میں ثقہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک اس قول کو ثقات سے نقل کیا ہو۔ ایسا ہر گز اس روایت میں کچھ بھی نہیں پایا جاتا ۔
[یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہے]۔ البتہ یہ قول نہج البلاغہ اور اس جیسی بعض دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ نہج البلاغہ کے اکثر خطبات خود ساختہ اور جھوٹے گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تھوپ دیئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کسی قدیم کتاب میں درج نہیں ۔[1] اور نہ ان کی کوئی سند معروف ہے۔توپھر ناقل نے کہاں سے نقل کیا ہے ؟
یہ خطبات اسی طرح ہیں جیسے کوئی شخص کہے کہ میں علوی یا عباسی ہوں ۔ حالانکہ ہمیں علم ہو کہ اس کے اسلاف میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔اور نہ ہی اس کے لیے ایسا کوئی دعوی [اس سے پہلے کیا گیا تھا]۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعوی بے بنیاد ہے۔ اس لیے کہ نسب اپنی اصل کے اعتبار سے جانا پہچانا ہوتا ہے اور اسی طرح وہ اپنی فرع سے مل جاتا ہے۔
ایسے ہی منقولات کے لیے ضروری ہے کہ صاحب قول سے لیکر ہم تک اس کی معروف سند ہونی چاہیے۔ اگر کوئی انسان کتاب لکھے ؛جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے بہت سارے خطبات جمع
|