تھوکتے ہیں ، تو وہ جس کسی کے ہاتھ پڑتا ہے، وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ اور جب وہ کسی بات کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو ان کے اصحاب بہت جلد اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔ جب وضو کرتے ہیں ، تو ان کے غسالہ وضوء کیلیے لڑتے مرتے ہیں ۔ اپنی آوازیں ان کے سامنے پست رکھتے ہیں ۔ نیز بغرض تعظیم ان کی طرف دیکھتے تک نہیں ۔ بے شک انہوں نے تمہارے سامنے ایک عمدہ مسئلہ پیش کیا ہے، لہٰذا تم اس کو مان لو۔
چنانچہ بنی کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ: مجھے بھی اجازت دو کہ میں بھی ان کے پاس جا کر ان کو دیکھوں ۔ تو لوگوں نے کہا کہ: اچھا تم بھی ان کے پاس جاؤ۔
جب وہ آنحضرت اور آپ کے اصحاب کے سامنے آیا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے اور وہ اس قوم میں سے ہے، جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کیا کرتے ہیں ، لہٰذا تم قربانی کے جانور اس کے سامنے کرو، جب قربانی کے جانور اس کے سامنے لائے گئے اور لوگوں نے لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا، اس نے یہ حال دیکھا، تو کہنے لگا، سبحان اللہ!ایسے اچھے لوگوں کو کعبہ سے روکنا زیبا نہیں ہے، پھر جب وہ اپنے لوگوں کے پاس لوٹا توکہنے لگا کہ:’’ میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا کہ انہیں قلادے پہنائے گئے تھے اور ان کا اشغار کیا ہوا تھا (یعنی ان اونٹوں کے کوہان پر اس لیے زخم لگایا جاتا ہے تاکہ وہ حج کا ہدیہ متصور کیے جائیں ) ، لہٰذا میں تو یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے ۔‘‘
پھر ان میں سے ایک اور شخص کھڑا ہوا، جس کا نام مکر زبن حفص تھا؛ اس نے کہا کہ مجھے بھی اجازت دو کہ میں بھی محمد کے پاس جاؤں ۔لوگوں نے کہا کہ اچھا تم بھی جاؤ۔ چنانچہ جب وہ مسلمانوں کے پاس آیا، تو رسول اللہ نے فرمایا، یہ مکرز ہے، اور یہ ایک بدکار آدمی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا کہ سہیل بن عمرو نامی ایک شخص کافروں کی طرف سے آیا۔
معمر کہتے ہیں ، مجھ سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کرکے یہ بیان کیا کہ جب سہیل آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اب تمہارا کام آسان ہوگیا۔‘‘
معمر کہتے ہیں کہ: زہری نے مجھ سے اپنی حدیث میں یہ بھی بیان کیا کہ جب سہیل بن عمرو آیا، تو اس نے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان میں صلح نامہ لکھ دیجئے ۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ: لکھ :’’بسم اللّٰہ الرحمنٰ الرحیم‘‘
سہیل نے کہا:’’ اللہ کی قسم! ہم رحمن کو نہیں جانتے کہ وہ کون ہے؟، کفار نے یہ اس لیے کہا کہ وہ لفظ رحمن کو اللہ کا نام جانتے ہی نہ تھے۔ آپ یوں لکھوائیے:’’باسمک اللھم‘‘ جیسا کہ آپ پہلے لکھا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا: ہم تو بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ہی لکھوائیں گے۔
|