قریش کو لڑائی ہی نے کمزور کردیا، اس سے ان کو بہت کچھ نقصان پہنچا ہے، اگر وہ چاہیں تو میں ان سے کوئی مدت مقرر کر لوں ، لیکن وہ میرے اور کفار عرب کے درمیان نہ پڑیں ۔ نتیجہ میں اگر میں غالب آ جاؤں اور اس وقت قریش چاہیں کہ اس دین میں داخل ہوں جس میں اور لوگ داخل ہوئے ہیں تو وہ ایسا کریں ۔ اور اگر میں غالب نہ آؤں تو پھر وہ آرام اٹھائیں ۔کیونکہ اس صورت میں ان کا مقصود پورا ہوجائے گا، اور اگر وہ اس کو منظور نہ کریں ، تو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنی اس حالت میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا، تاآنکہ قتل کردیا جاؤں ، اور بے شک اللہ اپنے دین کو جاری رکھے گا۔‘‘
بدیل نے کہا :’’جو کچھ آپ نے کہا میں قریش سے جا کر یہی کہہ دوں گا۔
چنانچہ وہ گیا اور قریش سے جا کر کہا کہ:’’ ہم تمہارے پاس اسی شخص کے پاس سے آرہے ہیں ، اور ہم نے انہیں کچھ کہتے ہوئے سنا ہے، اگر تم چاہو تو ہم بیان کردیں ۔ تو ان کے بے وقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی کچھ حاجت نہیں کہ کسی بات کی خبر دو۔ لیکن عقل مندوں نے کہا :’’ تم نے ان سے جو کچھ سنا ہے بیان کرو ۔ بدیل نے کہا:’’ میں نے ان کو یہ یہ کہتے سنا ہے؛ پھر جو کچھ آپ نے فرمایا تھا بیان کردیا۔
تو عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ لوگو! کیا میں تمہارا باپ نہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں !
عروہ نے کہا: ’’کیا تم میری اولاد کی طرح نہیں ہو؟ انہوں نے کہا ہاں !
عروہ نے کہا: کیا تم مجھ سے کسی قسم کی بدظنی رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں !
عروہ نے کہا :کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری نصرت کے لیے بلایا مگر جب انہوں نے میرا کہا نہ مانا، تو میں اپنے اعزہ اور اولاد کو جس نے میرا کہنا مانا، اس کو تمہارے پاس لے آیا۔
انہوں نے کہا ہاں !یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
عروہ نے کہا :’’اچھا، اب میری ایک بات مانو! اس شخص (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کومنظور کرلو، اور مجھے اجازت دو کہ میں اس کے پاس جاؤں ۔
سب نے کہا: اچھا آپ جائیے، چنانچہ عروہ آپ کے پاس آئے گفتگو کرنے لگے۔ آپ نے اس سے ویسی ہی گفتگو کی جیسی کہ بدیل سے کی تھی۔‘‘
عروہ نے کہا: اے محمد !یہ بتاؤ کہ اگر تم اپنی قوم کی جڑ(بنیاد) بالکل کاٹ ڈالو گے؟ تو اس میں تمہارا کیا فائدہ ہوگا؟ کیا تم نے اپنے سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا استحصال کیا ہو؟ اور اگر دوسری بات ہوجائے کہ تم مغلوب ہو جاؤ تو پھر کیا ہوگا؟ اور نتیجہ میں تو یہی آخری بات معلوم ہو رہی ہے، کیونکہ میں تمہارے ہمراہ ایسے لوگ اور ایسے مختلف آدمی دیکھ رہا ہوں جو بھاگ جانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ سنو!وہ تمہیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیں گے۔ - امام احمد رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں کہ: ’’ یہ ایسے لوگ
|