Maktaba Wahhabi

641 - 764
حضرت امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن الحکم کی روایت میں ہے : ’’ پس وہاں سے اٹھ کر چلے یہاں تک راستے میں کسی جگہ پہنچے ۔‘‘ یہاں تک یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے آپ کی سند سے کتاب الحج اورمغازی میں نقل کی ہے۔ حضرت امام زہری رحمہ اللہ کی روایت جو کہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی ہے؛ اور جس پر امام بخاری اور امام احمد رحمہما اللہ کا اتفاق ہے ۔ اس روایت میں ہے : ’’اثنائے راہ میں بطور معجزہ کے خالد بن ولید (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے)کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : مقام غمیم میں قریش کے ساتھ مقدمہ جیش پر ہیں ۔ تم داہنی طرف چلنا اور ادھر خالد کو مسلمانوں کا آنا ذرا بھی معلوم نہ ہوا تھا جب لشکر کا غبار ان تک پہنچا تو انہیں معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ اسی اثنا میں فوراً ایک شخص قریش کو خبر دینے کیلیے چل دیا۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم برابر چلے جا رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ اس پہاڑی پر پہنچے جس کے اوپر سے ہو کر لوگ مکہ میں اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا:’’ حل حل(أٹھ اٹھ ؛ اور اسے اٹھانے کی) بہت کوشش کی گئی؛ مگر اس نے جنبش نہ کی صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قصویٰ بیٹھ گئی، قصوا بیٹھ گئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ قصوی خود سے نہیں بیٹھی نہ اس کی یہ عادت ہے بلکہ اسے اس نے روکا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کفار قریش مجھ سے جس بات کا سوال کرینگے اور اس میں اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی تعظیم کریں گے تو میں ان کی اس بات کو منظور کرلوں گا۔ اس کے بعد آپ نے قصویٰ کو ڈانٹا تو اس نے جست لگائی، اور روانہ ہو گئی۔یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنارے ایک گڑھے پر بیٹھ گئی، جس میں پانی بہت ہی تھوڑا سا تھا، لوگ اس سے تھوڑا تھوڑا پانی لیتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگوں نے اس کو پی لیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی، تو آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کردیا، اور حکم دیا کہ اس کو اس پانی میں ڈال دیں ۔‘‘ پس اللہ کی قسم !پانی فوراً ابلنے لگا، یہاں تک کہ سب لوگ اس سے سیراب ہو گئے۔ اتنے میں بدیل بن ورقا خزاعی نے اپنی قوم خزاعہ کے چند آدمیوں کو جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ تھے اور تہامہ کے رہنے والے تھے،-امام احمد کے الفاظ کے مطابق ان میں مسلمان بھی تھے اور مشرک بھی- ساتھ لا کر کہا کہ:’’ میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ حدیبیہ کے گہرے چشموں پر فروکش ہیں ، ان کے ہمراہ دودھ والی اونٹنیاں ہیں ، ہر طرح سے ان کا سامان درست ہے اور وہ لوگ آپ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں ، اور آپ کو کعبہ سے روکنا چاہتے ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہم کسی سے لڑنے کیلیے نہیں آئے ہم تو صرف عمرہ کرنے آئے ہیں ، در حقیقت
Flag Counter