Maktaba Wahhabi

586 - 764
بطریق اولیٰ حجت ہوسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں باطل دعوے ہیں ۔لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی حجت قاتلین علی رضی اللہ عنہ کی حجت سے زیادہ بودی اور بے کارہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین اور آپ سے لڑنے والے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مخالفین و قاتلین سے کئی گنا زیادہ تھے۔ بلکہ جن لوگوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ لڑی وہ باتفاق مسلمین قاتلین ومحاصرین عثمان سے کئی درجہ افضل تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ لڑنے والوں میں عابد و زاہد لوگ بھی تھے۔ قاتلین عثمان میں نہ ہی دیندار لوگ تھے اور نہ ہی وہ مقاتلین علی رضی اللہ عنہ کی طرح تکفیر کا اظہار کرتے تھے۔ حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت خلیفہ راشد ہیں ‘ اور ان کے خون کو حلال جاننے والے ظالم و سرکش باغی تھی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین ان سے بڑے ظالم و سرکش تھے۔ سوم : یہ کہ : یہ بات تواتر کیساتھ معلوم ہے کہ تمام مسلمانوں نے اتفاق کیساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی اور کوئی ایک بھی آپ کی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔ حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے نہ ہی آپ کی اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا تخلف آپ کی خلافت میں قادح نہیں ہوسکتا؛اس لیے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے خود ان پر کوئی تنقید نہیں کی؛ اور نہ ہی آپ کے افضل المہاجرین ہونے کا انکار کیا ہے۔ بلکہ یہ ساری چیزیں وہ لوگ جانتے تھے؛ مگر ان کا مطالبہ تھا کہ ایک امیر انصار میں سے ہو ۔ یہ بات نصوص متواترہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’الأئمۃ من قریش ۔‘‘ ’’ ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔‘‘ [سبق تخریجہ] اس معلوم شدہ نص کی بنا پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا گمان غلط تھا۔ تونص سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ کا بیعت سے پیچھے رہنا غلطی تھا ۔اور جب نص سے غلطی ثابت ہوجائے تو پھر اجماع میں اس سے حجت نہیں لی جاسکتی۔ جب کہ حضرت عثمان کے دور میں خلافت اسلامیہ کے افریقہ سے لیکر خراسان تک ؛ اور شام کے ساحلوں سے لیکر یمن کی آخری حدوں تک پھیلے ہوئے ہونے کے باوجود کوئی ایک بھی آپ کی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔ اس وقت مسلمان اپنے اہل کتاب و مشرکین پر غالب تھے اور ان سے جنگیں بھی لڑ رہے تھے۔ اس سے فتح و نصرت میں اضافہ ہوا ۔ ملک کو دوام ملا ۔ اورچھ سال یعنی خلافت کے نصف عرصہ تک مسلمان آپ کی بیعت پرقائم رہے ؛ آپ کی مدح و ثناء کرتے اور تعظیم سے پیش آتے تھے۔ اس دوران کسی ایک نے بھی آپ کی شان میں کوئی ایک کلمہ تک بھی نہیں کہا۔ پھر اس کے بعد کچھ لوگ آپ پر باتیں کرنے لگے۔ جب کہ جمہور مسلمین خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہتے تھے۔ آپ کی امارت کا عرصہ لوگوں پر طویل ہوگیا تھا۔ اس لیے کہ آپ بارہ سال تک امیر المؤمنین رہے۔خلفاء اربعہ میں سے کسی ایک کو بھی اتنا عرصہ خلافت کرنے کا موقع نہیں ملا جتنا لمبا عرصہ آپ کو موقع ملا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دو سال چارماہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت دس سال او رکچھ ماہ رہی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت چار سال اور کچھ عرصہ رہی۔ آپ کے عہد خلافت میں وہ لوگ بھی پروان چڑھے جو مجبوراً اسلام کا اظہار کررہے تھے ؛ مگر حقیقت میں وہ منافق تھے۔
Flag Counter