کام ہے۔ اور ایسے واقعات کو صرف ایسے لوگوں میں ہی پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے جو لوگوں میں سب سے جاہل اور احمق ہوں ‘ اور علم ومعرفت کے لحاظ سے بالکل تہی دامن ۔
پانچویں بات: سورت نجم اسلام کے ابتدائی دور میں ناز ل ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بالکل بچے تھے ۔ بلوغت کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے؛ اور نہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی تھی؛ اس وقت نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی زکوٰۃ اور حج اور رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے۔ اورنہ ہی اسلام کے عام قواعد مستحکم ہوئے تھے۔
اگر ان لوگوں کے دعوی کے مطابق امامت کے لیے وصیت کا واقعہ غدیر خُمّ کے موقع پر پیش آیا تو پھر اس سورت کے نزول کے وقت وصیت کرنے کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟ [1]
چھٹی بات :....مفسرین کرام رحمہم اللہ کا اس کے خلاف پر اتفاق ہے ۔ سورت نجم میں جن ستاروں کی قسم اٹھائی گئی ہے وہ یا تو آسمان کے ستارے ہیں یا پھر قرآن کے ستارے ۔ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ مکہ میں کسی کے گھر میں ستارہ ٹوٹ کر گرا تھا۔
ساتویں بات:....جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہے : ’’آپ گمراہ ہوگئے ‘‘ تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ اور کفار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہادتین کے اقرار اور اسلام میں داخل ہونے سے پہلے فروعی احکام کا حکم نہیں دیا کرتے تھے۔
آٹھویں بات:....اگرستارے کا ٹوٹنا آسمان سے گرنے والی [بجلی] آگ تھی؛ تو پھر کسی کے گھر میں بجلی کا گرنا اس کی کرامت نہیں ہوتی۔اور اگر یہ ستارہ آسمانی ستاروں میں سے تھا تو یہ ستارے اپنے فلک سے باہر نہیں نکلتے۔اور اگریہ کوئی شہابیہ تھا تو شہابیے شیاطین کومارنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں ۔شہابیے زمین پر نازل نہیں ہوتے ۔ اگر یہ مان لیا
|