Maktaba Wahhabi

568 - 764
ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے ۔اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَ لَوْ کُنَّا کٰرِہِیْنَoقَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْہَا وَ مَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْہَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا [کُلَّ شَیْئٍ عَلْمًا ]﴾ (الأعراف:۸۸۔۸۹) ’’ان قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب!ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ شعیب علیہ السلام نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں ۔ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی؛اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں ، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو ہمارے رب کا علم ہرچیز کو محیط ہے۔‘‘ اس کی وضاحت اس طرح سے کی گئی ہے جس نے گناہ سے توبہ کرلی اور اس کی بخشش ہوگئی تو یہ گناہ اس کے بلند مرتبہ میں عیب کا باعث نہیں بنیں گے؛ خواہ وہ کتنے ہی بلند مرتبہ کوکیوں نہ پہنچ جائے۔لیکن روافض کا یہ حال ہے کہ اس مسئلہ میں کتاب اللہ ‘سنت رسول اللہ ‘ اجماع امت اور دلائل عقلیہ کی مخالفت کرتے ہیں ؛ اور پھر ایسے قول کو اپنے لیے لازم کرلیتے ہیں جس کا باطل ہونا صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزرکے ایمان کا دعوی کرنا؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین اور چچا ابو طالب کے ایمان کا دعوی کرنا’ تیسرا جواب:....جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو قریش میں سے چھوٹا بڑا کوئی بھی مومن نہ تھا،نہ ہی کوئی مرد ‘ نہ ہی کوئی عورت اور بچہ ؛ نہ ہی اصحاب ثلاثہ اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ جب بڑے مردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے تو بچے بھی تو ویسے ہی کیا کرتے تھے ‘ [یعنی ان کے بچے بھی بتوں کے پرستار ہوں گے] جن میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور دوسرے بچے بھی۔ اگر کہا جائے کہ بچے کا کفر ضرر رساں نہیں ہے، تو ہم کہیں گے کہ بچے کا ایمان بھی مردبالغ کے ایمان جیسا نہیں ہے۔اگر اصحاب ثلاثہ کے لیے ایمان اور کفر کا حکم بلوغت میں ثابت ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ایمان اورکفر کا حکم بھی بلوغت سے پہلے کا ثابت ہے۔ اور بچہ جب کافر ماں باپ کے ہاں پیدا ہو تو اس پر دنیا میں کفر کا حکم ہی لگتا ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اگر وہ بلوغت سے پہلے اسلام قبول کرلے توکیا اس کے لیے اسلام کا حکم ثابت ہوجائے گا ؟ اس
Flag Counter